طالبِ علم کے لئے استاد کا ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔طالبِ علم اور استاد کے
درمیان رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔طالبِ علم کے لئے استاد کا کردار ایک باغبان کی
مثل ہے۔ جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے
بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح طالبِ علم کی تربیت کے لئے استاد کی توجہ اور کوشش بے حد
ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔شاگرد کو چاہئے کہ وہ استاد کا دل و جان سے ادب و
احترام کرے کیونکہ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:جس نے جو کچھ پایا ادب و
احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی
کھویا۔
استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو شاگرد کی طرف ٹرانسفر
کرتا ہے اس کو استاد کہتے ہیں۔
استاد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد ضاخان استاد کے حقوق بیان فرماتےہیں:عالم کا جاہل پر اور
استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ
(1)شاگرد استاد سے پہلے گفتگو نہ کرے۔
(2)شاگرد استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔
(3)شاگرد کو چاہئے کہ چلتے وقت استاد کےآگے نہ بڑھے۔
(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام
نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا
احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔
(5)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے۔
(6)اگر استاد گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے
بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
(7)استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ
جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(کامیاب
طالب علم کون؟ ص 54)
(8)شاگرد کو چاہئے کہ جب استاد بیمار ہو تو اپنے استاد کی
سنت کے مطابق عیادت کرے۔
(9)شاگرد کو چاہئے کہ کوئی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاد سے
مشورہ کرے۔
استاد کا ادب:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی
فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے
فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا
ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا:جب تک میرے استاد
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز
کیا کرتا تھا۔لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرانگی ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق
حضرت ذو النون مصری ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور
تاریخ نوٹ کرلی گئی،جب بعد میں معلومات لی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے
تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ہے۔(تذکرۃ
الاولیا،1/229)
اللہ کریم ہمیں حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا صدقہ
اپنے استادوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں دل و جان سے ادب و
احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے اللہ کریم ہمیں بچائے۔اٰمین
اللھم اٰمین