استاذ( یعنی معلِّم ) ہونا بہت بڑی سعادت ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقاﷺنے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت وکرامت کا تاج عطا فر مایا ہے، چنا نچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:انما بعثت معلما یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔(ابن ماجہ، 1/150)ایک اور مقام پر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے کتابُ اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک”باب“ سکھایا تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرمادیتا ہے۔(کنز الایمان، 10/61) استاذ کی اہمیت جاننے کے بعد آئیے! استاذ کےحقوق کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہیں:

1۔طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ادب کرے:کسی عربی شاعر نے کہا ہے:مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقَطٍ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرْمَةِیعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔امام شعبی نے روایت کیا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی۔ پھر سواری کا خچر لایا گیا، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے رسول الله ﷺ کے چچا کے بیٹے ! آپ ہٹ جائیے۔ اس پر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علما و اکابر کی اسی طرح عزت کرنی چاہیے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، ص116)

2۔استاذ کو اپنا روحانی باپ سمجھے:استاذ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا طالب العلم کو چاہیے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیر کبیر میں ہے:استاذ اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر، 1/401)

3۔بیمار ہونے پر عیادت کرے:اگر کوئی استاذ بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم سےروایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا:” جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔

(ترمذی،2/290، حدیث 971)

4۔استاد کی غم خواری کرے:اگر کسی استاذ کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غم خواری کرے اور حدیثِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوکسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ پاک سے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔ (معجم اوسط،6/429، حدیث:9292)

5۔اہم معاملات میں استاذ سے راہ نمائی لے: طالبُ العلم کو چاہیے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاذ سے ضرور مشورہ کرلے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور فقہ میں کتابُ الصلوۃ سیکھنے لگے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کی طبیعت میں فقہ میں عدم دلچسپی اور علمِ حدیث کی طرف رغبت دیکھی تو ان سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور علمِ حدیث حاصل کرو کیونکہ آپ نے اندازہ لگالیا تھا کہ ان کی طبیعت علمِ حدیث کی طرف زیادہ مائل ہے۔ پس جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا اور علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ تمام ائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص55)

باادب با نصیب بےادب بدنصیب

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرتے ہوئے ان کے حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابیوں سے نوازے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ