علم کے بارے میں حدیثِ مبارکہ: آقاﷺنے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) ایک اور حدیث میں فرمایا:میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔ (مسند ابی یعلیٰ، 3/16، حدیث: 2782) نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں علم کا شہر ہوں ابو بکر اس شہر کی بنیاد ہے۔عمر اس کی دیوار ہے۔عثمان اس کی چھت ہے اور علی اس کا دروازہ ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 9/20)

اُستاد کے اوصاف: استاد بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اُٹھاتی ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی۔استاد معاشرے کا وہ نمک ہے جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود ذائقہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔استاد شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کوروشنی دیتی ہے۔ اُستاد وہ ماں ہے جو سراسر محبت ہےاور بذاتِ خود ٹھنڈی جگہ لیٹ کر بچے کو خشک اور گرم بستر مہیا کرتی ہے۔اُستاد شعور ذات کے سفر میں رہنمائی کرنے والا اور علم و دانش کا رکھوالا ہے۔رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: علم کی روشنائی شہید کے خون سے مقدس تر ہے۔ (جامع صغیر، ص 571، حدیث: 9619)

اُستاد کے حقوق: امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں نے کبھی اپنے استاد کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔ڈاکٹر اقبال کا اپنے استاد سے عشق کا یہ حال تھا کہ جب ان کے اُستاد کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاد کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹتا تھا۔استاد علم دینے کا وعدہ کرتا ہے اور شاگرد ادب کرنے کا، اگر شاگرد ادب چھوڑ دے تو علم سے محروم ہو جانا اس کا مقدر ہے۔

اُستاد کے لیے ہمیشہ دعا کیجئے: ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں ہر نماز کے بعد اُستاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔اپنے اُستاد سے محبت کرو کیوں کہ اسی کی بدولت آج تم یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہو!اگر استاد بظاہر نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کر دے کہ وہ لائق ہو سکتا ہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔امام برهان الدین زرنوجی فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ (راہِ علم، ص 28) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام کے دل سے دعائیں ملتی ہیں اور بزرگوں کی دعائیں انسان کو بڑی اونچی جگہ لے جاتی ہیں۔