دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت نہیں کرتا۔

حق:کسی انسان کو وہ چیز دینا جس کا وہ مستحق ہے حق کہلاتا ہے۔

شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرے کا اظہار کرے۔اس کے حق کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔ جس سے اس کے استاد کو اذیت پہنچی وہ برکاتِ علم سے محروم رہے گا۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے۔اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت سمجھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

استاد کا ادب:استاد کا ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا:استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔

بیمار ہونے پر عیادت:اگر استاد بیمار ہوجائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔(ترمذی، 2/290، حدیث: 971)

استاد کی غمخواری:اگر استاد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والدین یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غمخواری کرے اور حدیث ِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی غمزدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گااور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جس کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔(معجم اوسط، 6/429، حدیث: 9292)

سچ بولے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ بولے۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے والے طالبِ علم کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ملاحظہ فرمائیے:سخن پروری یعنی دانستہ باطل پر اصرار ومکابرہ ايک کبيرہ،کلمات علماء ميں کچھ الفاظ اپنی طرف سے الحاق کر کے ان پر افترا دوسرا کبيرہ،علماء کرام اور خود اپنے اساتذہ کو دھوکہ دینا خصوصاً امر دين ميں تیسرا کبيرہ،يہ سب خصلتيں یہود لَعَنَھُمُ اللہُ تَعَالٰی کی ہيں۔ وقال اللہ تعالی: ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵) (پ1، البقرۃ:75) پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ہیں۔ پس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے بچائے اور استاد کے حقوق پورے کرنے کی توفیق دے کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ آج اگر آپ یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔