انسانوں کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات ہر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی، اس لئے سب سے پہلے وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ تحصیلِ علم کے بارے میں تاکید فرماتے ہیں:علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اللہ پاک نے اپنے آخری نبیﷺ کی معلم ہونے کی حیثیت سے تعریف فرمائی جن سے غافل انسانوں نے علم حاصل کیا۔اس لئے معلمی منصب نبوت قرار پایا۔ظاہر ہے کہ کسی علم کو حاصل کرنے کے لئے کسی استاد سے استفادہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں۔اس وجہ سے استاد اور معلم ہی ہمیں اس فضیلت سے سرفراز کرنے والا ہے اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کے حقوق کو پورا کرنا ضروری ہے۔

استاد کے 5 حقوق:

1)ادب و احترام:شاگرد کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔نبیِ کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں استاد روحانی باپ ہے چانکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اس لئے استاد کا مادی باپ سے بھی زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہے۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:میرے استاد حماد رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہ پھیلائے۔

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

2)اطاعت و فرمانبرداری:شاگرد کا فرض ہے کہ وہ اپنےا ستاد کی پوری طرح اطاعت و فرمانبرداری کرے۔طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد جن باتوں کا حکم دے ان پر عمل کرے اور جن باتوں سے منع کرے ان سے رک جائے۔

3)عجز و انکساری:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ عجز و انکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔اپنے استاد سے کبھی تکبر و غرور سے پیش نہ آئے۔طالبِ علم کو استاد کے سامنے اس طرح ہونا چاہئے جس طرح مردہ زمین پر بارش ہوتی ہے تو وہ زندہ ہوجاتی ہے۔

4)استاد سے حسنِ ظن:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد سے حسنِ ظن رکھے۔اگر استاد کسی وقت سختی کرے تو شاگرد اس سختی کو برداشت کرےکیونکہ استاد کی سختی بھی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتی ہے۔

5)معاشی تحفظ:چونکہ معاشرہ کی ترقی میں استاد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے،اس لئے استاد کا حق ہے کہ اسے معاشی تحفظ اور بلند معاشرتی مقام دیا جائے۔قدیم دور میں سلاطین و رؤسا اپنے بچوں کے اثالیق کی مکمل طور پر مالی سرپرستی کرتے تھے۔اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں استاد کی قدر کی جاتی ہے اور اسے بھرپور معاشی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

6)معذرت:اگر استاد کسی وجہ سے ناراض ہوجائے تو شاگرد کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد سے معذرت کرےا ور استاد کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کرے۔استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں باادب بیٹھنا ہےا ور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:ہم مسجدِ نبوی میں اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا ہمارے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں اور ذرا سی حرکت سے اڑجائیں گی۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔