دنیا کے حسین ترین رشتوں میں سے ایک استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ہے۔استاد شاگرد
کا روحانی باپ ہوتا ہے۔استاد علم سکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کا بہترین دوست بھی
ہوتا ہے جو اسے مشکل وقت میں نصیحت کرتا ہے اور اگر کبھی شاگرد بھٹکنے لگے تو اسے
بچا کر راہِ راست پر لے آتا ہے۔کائنات کے بہترین استاد جانِ عالم ﷺ اپنے شاگردوں
پر کمال مہربان و شفیق تھے۔آپ کے وارثین علما اب تک آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے
علم سکھانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔استاد چونکہ روح کا باپ ہے،لہٰذا والدین کی
طرح استاد کے بھی بے شمار حقوق ہیں۔جن میں سے چند کا ذکر کیا جائے گا۔
(1)ادب و احترام:شاگرد کو
چاہئے کہ ہمیشہ استاد کا با ادب رہےا ور احترام سے پیش آئے۔حضور ﷺ کا فرمانِ
عالیشان ہے:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو۔جس استاد نے تجھے علم
سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرے۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں
تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے
پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)
(2)والدین کے حقوق پر استاد کے حقوق مقدم رکھے:والدین جسم کی پرورش کرتےکھلاتے پلاتے ہیں مگر استاد روح کی
تربیت کرتا،اچھے اخلاق سکھاتا اور کردار سنوارتا ہے،لہٰذا استاد کا رتبہ والدین سے
بڑھ کر ہوا۔عین العلم شریف میں ہے:استاد کے حق کو ماں باپ کے حق پر مقدم رکھے کہ
وہ زندگی روح کا سبب ہے۔(فتاویٰ رضویہ،19/451-452)
(3)پوشیدہ عیوب تلاش نہ کرے:اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: 12) ترجمہ:اور
پوشیدہ باتوں کی جستجو نہ کرو۔مسلمانوں کے عیب تلاش کرنا منافقین کا شعار ہے اور
جب استاد کے عیوب تلاش کئے جائیں گے تو یہ مزید قبیح اور مذموم تر ہوجاتا ہے کہ
اپنے محسن کی ٹوہ میں لگ جائے اور اس کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے۔
(4)استاد سے آگے نہ بڑھے:فتاویٰ بزازیہ و فتاویٰ عالمگیری میں ہے:عالم کا جاہل پر اور استاد کو شاگرد
پر برابر حق ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے،وہ موجود نہ ہو جب بھی اس کی جگہ نہ
بیٹھے،اس کی کوئی بات نہ الٹے نہ ہی اس سے آگے چلے۔(فتاویٰ رضویہ،19/452)
(5)امتحاناً سوال نہ کرے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے علم کو جانچنے کے لئے اس سے امتحاناً سوال نہ
کرے کہ یہ سخت بے ادبی ہے۔استاد کو کوئی بھی بات کہے تو ناقص رائے کے طور پر کہے
اور اس کے سامنے محکوم بن کر رہے۔امیرِ اہلِ سنت نے طلبہ و طالبات کے لئے نیک
اعمال کے رسالے میں سوال کی صورت میں امتحاناً سوال کرنے سے بچنے کا ذہن دیا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:عالم کے حقوق میں سے ہے کہ تم اس سے زیادہ سوال نہ کرو،جواب میں اس پر
سختی نہ کروموہ تھک جائے تو اصرار نہ کرو،جب وہ اٹھنے لگے تو اس کے کپڑے نہ
پکڑو،اس کے بھید نہ کھولو،اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو،اس کے عیب نہ ڈھونڈو،اگر
لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو،جب تک وہ دین کی حفاظت کرے تب تک اللہ پاک کے لئے
تم پر اس کی تعظیم و توقیر واجب ہے۔اس کے آگے نہ بیٹھو اور جب اسے کوئی حاجت ہو تو
سب سے پہلے اس کی خدمت کرو۔(احیاء العلوم،1/179)
مشہور مقولہ ہے:با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب۔دارین کی بھلائیاں ادب میں
پوشیدہ ہیں۔بے ادب اگرچہ جتنی چاہئے تعلیم حاصل کرلیں علم کی حلاوت نہیں پا
سکتے۔با ادب اگرچہ کم علم حاصل کر پائے وہ علم اور استاد کے فیضان کا حق دار ہوتا
ہے۔اللہ کریم تمام طلبہ کا استاد کا با ادب بنائے۔اٰمین بجاہ خاتم المرسلین ﷺ