استاد کی تعریف:تعلیم میں
استاد،معلم وہ ہے جو متعلم یا طالبِ علم کی مدد و معاونت و راہ نمائی کرتا ہے۔کوئی
بھی درس گاہ ہو معلم کے بغیر درس گاہ کا تقدس ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے بغیر گھر۔
استاد کی عظمت قرآن کی روشنی میں:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ
مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ
نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اللہ پاک نے انسان کو پہلے قدرتی
چیزوں کے بارے میں علم فرمایا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبر کے ذریعے
ترسیل فرمائی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ ایک معلم ہیں۔
استاد کی عظمت حدیثِ مبارکی روشنی میں:رسول اللہ ﷺ وہ لوگ بہتر ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور
دوسروں کو سکھاتے ہیں۔
استاد کے 5 حقوق:
(1)استاد کے احترام و حقوق میں سب سے اہم یہ ہے کہ انتہائی ادب و احترام کے
ساتھ اپنے استاد کی بتائی گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو دھن نشین کر کے اس پر
عمل کرے اور اپنے علم کو دوسروں تک بھی پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول
کے لئے پوری جدو جہد کرے۔ایک استاد کو حقیقی کوشی تب ملتی ہے جب ان کا شاگرد اونچے
مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
قول:مشہور قول ہے کہ
جس نے معالج کی عزت نہ کی وہ شفا سے محروم رہا اورجس نے استاد کی عزت نہ کی وہ علم
سے محروم رہا۔یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہوگیا بلکہ یتیم تو وہ ہے جو علم اور ادب
کی دولت سے محروم ہوگیا۔
(2)استاد روحانی والدین ہوتے ہیں۔جس طرح والدین کا ادب و احترام کرنا ہم پر
لازم ہے اسی طرح استاد کا ادب و احترام بھی لازم ہے۔استاد کے سامنے اپنی نگاہیں
جھکا کر گفتگو کی جائے۔ان کی آواز سے اونچی اپنی آواز نہ کی جائے۔استاد کے ہر جائز
حکم پر فوراً لبیک کہنا چاہئے۔استاد کی عزت ماں باپ سے زیادہ کرو کیونکہ وہ تمہاری
روح کی اصلاح کرتا ہے۔مرشد اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھیں۔
(3)استاد کی غیبت کرنا،استاد کی نقل اتارنا،استاد پر بہتان باندھنا ان سب کاموں
سے بچنا چاہئے۔استاد کے ساتھ کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔اگر استاد کے ساتھ جھوٹ
بولیں گے تو اس میں نقصان بھی اپنا ہی ہوگا۔ استاد کی کبھی بھی گستاخی نہ کی
جائے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکت ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
(4)استاد کے آگے نہ چلیں۔استاد کو اگر آتا دیکھیں تو ادب سے ان کے سامنے کھڑے
ہوجائیں۔اگر کسی مجلس میں استاد کی تشریف آوری ہو تو ان کے لئے آگے بڑ کر اچھی
نشست کا انتظام کیجئے۔استاد کی نشست گاہ پر بیٹھنے کی بے ادبی سے بھی بچیں۔
یہ غم کھاتا چلا
جاتا ہے مجھ کر مجھے اس خوف
سے فرصت نہیں
کہیں برکت نہ اٹھ
جائے وہاں سے جہاں استاد کی عزت نہیں
ہے
(5)استاد کا احترام یہ ہے کہ استاد کی عدم موجودگی میں استاد کا نام سنتے ہی
شاگرد مؤدب کھڑا ہوجائے۔استاد کا ایک احترام یہ بھی ہے کہ کبھی بھی استاد کا نام
نہ لیا جائے بلکہ ان کی کنیت سے پکاریں۔ استاد کے سامنے احتراماً نگاہیں جھکا کر
چلنے والا ہمیشہ سر اٹھا کر چلتا ہے۔
استاد کی تعظیم کا منظر:فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور انبیائے کرام کے
سردار معلمِ انسانیت کے پاس جب علم حاصل کرنے بیٹھتے ہیں تو با ادب اپنے زانوں
سمیٹ کر بیٹھتے ہیں۔
استاد کے لئے دعا:حضور ﷺ نے
استاد کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ پاک اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات
سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا۔(ترمذی، 4/298،
حدیث: 2665)
الغرض استاد کا جتنا ادب و احترام کیا جائے اتنا کم ہے،جتنے الفاظ لکھے جائیں
اتنے کم ہیں۔ استاد کا ادب و احترام قلم میں نہیں سما سکتا۔اللہ پاک ہمیں صحیح
معنیٰ میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی
دعاؤں سے حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔آج تک ہم سے جانے انجانے میں جتنی بات بھی
استاد کی بے ادبی ہوئی اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں استاد کا زیادہ سے
زیادہ ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ پاک ہمارے تمام اساتذہ کرام کو مرشد کے
سنگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی
الامین ﷺ