استاد اور شاگرد کا رشتہ انتہائی اہم اور مقدس ہوتا ہے استاد کے حقوق تو بے شمار ہیں جو کہ شاگرد کے لیے ضروری ہیں کہ وہ اپنے استاد کے حقوق ادا کرے البتہ یہاں شاگرد کے کچھ حقوق بیان کئے جا رہے ہیں لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اپنا کر اپنے شاگردوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے کو شاں ہوں ۔

1۔عمل سے تربیت: استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو جس چیز کی تعلیم سے منور کر رہا ہے اس پر وہ خود بھی مکمل طور پر عمل پیرا ہو کیونکہ اگر استاد جس کام کے کرنے کا اپنے شاگردوں کو حکم دے رہا ہے مگر استاد خود ہی اس پر عمل نہیں کرتا تو پھر اس کے دیئے ہوئے حکم پر طالب علم کس طرح عمل کریں گے ؟ لہذا قول و فعل کا ایک جیسا ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ سے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔(پ28، الصف:2)

2۔ نرمی کا پہلو اختیار کرنا :استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے لیے نرمی اور شفقت کا پہلو اختیار کرے ۔ اگر شاگرد سے کوئی نا مناسب فعل سرزد ہو جائے تو استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگرد کی غلطی کو معاف کر دے اور بردباری اور وقار کے ساتھ پیش آئے۔ فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :ليس منا من لم يرحم صغيرنا ولم يوقر کبیرنا یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت و تعظیم نہ کرے۔ ( جامع ترمذی شریف ، 1919)

3۔ شاگرد کے کردار وسیرت کو سنوارنا :استاد کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے لیے توجہ سے کام دے اور شاگرد کی زندگی کو ایسی زندگی میں بدل ڈالے جیسی زندگی گزارنا ہمارے الله پاک اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پسند ہے۔ جو استاد اس چیز کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور پوری توجہ سے کام لیتا ہے وہ استاد قوم کی بڑی خدمت سر انجام دیتا ہے ( آداب استاد و شاگرد ، صفحہ: 35)

4۔ شاگرد کی حوصلہ افزائی کرنا :استاد کو چاہئے کہ اچھی تعلیمی کارکردگی اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔ حکایت: ایک مرتبہ ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابی بن کعب سے پوچھا کیا تجھے معلوم ہے کہ کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ ابی بن کعب رضی الله عنہ نے جواب دیا : آیت الکرسی ۔ تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے خوش ہو کر ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: یھنیك العلم ابا المنذر ۔ابو منذر تجھے علم مبارک ہو ۔( صحیح مسلم شریف : 810)

مذکورہ حکایت سے یہ بات سیکھنے کو ملی کہ استاد کو چاہئے کہ وہ ہر قدم پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کریں اس طرح شاکر دوں کو مزید علم سیکھنے کا جوش و جذبہ پیدا ہو گا ۔ اِن شآءَ اللہ

5۔سچ کی تعلیم اور جھوٹ سے نفرت سکھانے کی ترغیب : جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اس طرح استاد کا بھی سچائی کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اگر خدانخواستہ استاد جھوٹ کا سہارا لے گا تو سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوں گے ۔ اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ شاگردوں کے دلوں میں استاد اور اس کے بیان کردہ یا تحریر کردہ مضمون کی اہمیت کم یا ختم ہی ہو جائے گی لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ سچ بولے

الله عز و جل ہم سب کو علم نافع سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے " اساتذہ و شاگرد کے جملہ حقوق کو ادا کرنے کی مدنی سعادت نصیب۔ فرمائے (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )