مزمل علی عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ
المدینہ گلزار مدینہ عارف والا، پاکستان)
استاد اور شاگرد کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم
اسلامی نظام کے اغراض و مقاصد پر نظر کریں تو ان میں سے تعمیر کردار ایک نمایاں مقصد
ہے۔ اور کردار کی تعمیر استاد جیسی شخصیت ہی سرانجام دیتی ہے۔ آیئے قرآن وسنت
روشن اور بزرگان دین کے طرز عمل سے شاگرد کے حقوق جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ طلبہ پر شفقت: استاد کو طلبہ پر شفقت اور
محبت والا رویہ رکھنا چاہیے ایک استاد بہت شفیق اور مہربان ہوتا ہے بلکہ استاد
مصائب اور مشکلات کا سہارا بنتا ہے۔ امام یوسف رحمۃُ اللہِ علیہ کے لیے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے ان کے لیے وظیفہ
مقرر فرمایا ۔
2۔ طلبہ کے درمیان مساوات: اساتذہ کی نگاہ میں تمام طلبہ یکساں ہونے چاہیں اور امیر
غریب طلبہ میں فرق نہیں کرنا چاہیے ۔ بنو عباس کے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کو
اما م مالک نے عام بچوں کے پاس بیٹھ کر پڑھنے کا حکم دیا جبکہ خلیفہ نے ان کو گھر
میں اگر تعلیم دینے کی گزارش کی لیکن امام مالک نے رد کر دی ۔
3۔ استاد کا وسیع مطالعہ ہونا:استاد کو اپنے مضمون پر وسیع مطالعہ اور مکمل عبور حاصل
ہونا چاہے ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہُ
عنہ کے نزدیک عالم وہ ہوتا ہے جو طالب علم بھی ہو۔
4۔با کردار استاد: استاد کو بلند کردار والا ہونا چاہئے۔
قرآن حکیم میں اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔ (پ 28،
الصف:2)
5۔ طالب علم سے دلی تعلق: ایک استاد اپنے
طالب علم کو بہت یاد رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ ضحاد بن ابی سلیمان کوئی طویل سفر کر کے
آئے۔ بیٹے نے واپسی پر پوچھا آپ نے سفر پر کسے یا د رکھا ؟ فرمایا ! اپنے شاگر د
نعمان (امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ)
کو ۔الله پاک ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم