محمد عثمان عطاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدينہ اپرمال روڈ لاہور، پاکستان)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ استاد کا ادب اور اطاعت ہی
شاگرد کو دنیا و آخرت کامیاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ مگر استاد پربھی کچھ ذمہ داریاں ہیں
جن کی وجہ سے طالب علم کامیابی کے مراحل طے کر پائےگا اور وہی شاگرد کے حقوق
کہلاتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کا حق ادا نہ کیا جائے تو پھر اس سے اچھے نتائج کی
توقع رکھنا حماقت ہے ، اچھا استا د ہی قوم کا بہتر ین تربیت کرتا ہے : آئے شاگرد
کے چند ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1) بغیر تیاری کے نہ پڑھانا :استاد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلبہ کو بغیر تیاری کے سبق نہ
پڑھائے کہ نئے مطالعے سے نئی معلومات اور پیچیدہ نکات واضح ہوتے ہیں۔
(2)شفقت ، حوصلہ افزائی : شاکردوں پر حتی
الامکان نرمی و شفقت سے ہی پیش آئے ۔
ہے فلاح و کامرانی نرمی و
آسانی میں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی
میں
اور پھر وقتاً فوقتاً طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے
کہ اس سے ان کو آگے بڑھنے کا ذہن ملتا اور ہمت آتی ہے وہ اپنے اہداف کو پورا کرنے
میں کامیاب ہوتے ہیں ۔
(3) ہمیشہ سوال کا دروازہ کھلا رکھنا :اسناد کو چاہیے
کہ کبھی بھی طلبہ کو سوال کرنے سے نہ روکے کہ سوال آدھا علم ہے۔ اگر چہ بے جا سوال
کلاس کا ماحول خراب کرتا ہے مگر حتی الامکان سوال کرنے کا موقع دیا جائے کہ اس سے
علمی نکات ، باریکیاں نکالنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
(4) کند ذہن طلبہ کا احساس :جس طرح ہاتھ
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح کلاس میں تمام طلبہ کی ذہنی صلاحیت بھی ایک
جیسی نہیں ہوتی۔ استاد کو چاہیے کہ کند ذہن طلبہ کو بھی ساتھ لے کر چلے کہ کہیں وہ
احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں ۔
(5) طلبہ کی اخلاقی تربیت: طلبہ ہماری قوم
وملت کا سرمایہ ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، استاذ کو چاہیے کہ طلبہ کی
وقتاً فوقتاً تربیتی نشست قائم کرتا رہے۔