ایک شاگرد اور استاد کے درمیان بہت پیارا رشتہ ہوتا ہے۔ ایک
استاد تب تک اپنے علم کو دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا جب تک اس کو ایک شاگرد میسر نہ
ہو اور اسی طرح ایک شاگرد تب تک علم کی روشنی سے منور نہیں ہو سکتا جب تک اسے روشن
چراغ کی مانند استاد نہ مل جائے ۔ ایک منفرد کامل اور محبوب استاد بننے کے لئے ایک
استاد کو اپنے شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک رکھنا چاہیے جیسے وہ اپنی عزیز اولاد کے
ساتھ رکھتا ہے۔ ایک استاد کا دل تب تک مطمئن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے شاگرد کا
محبوب نہ بن جائے اپنے شاگرد کے نزدیک
محبوب استاد بننے کے لیے شاگردوں کے حقوق کو اپنی نظر میں رکھا جائے۔ اسی
مناسبت سے شاگردوں کے کچھ حقوق تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
( 1) نرمی نوازش کا سلوک:استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگرد کے ساتھ نرمی و محبت بھرا سلوک رکھے شاگرد کی
غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے اسے نرم انداز میں سمجھائے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان کو زیر نظر رکھتے ہوئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ
صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا یعنی جو ہمارے
چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی عزّت نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ۔(ترمذی،
3/ 369، حدیث:1927)
(2) شاگرد پر حسن ظن: شاگرد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کے بارے میں اچھا
گمان رکھا جائے اور بدگمانی سے پرہیز کیا جائے کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد
فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ
الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! بَہُت گُمانوں سے بچو بیشک کوئی گُمان گناہ ہو جاتا ہے۔ (پ26،
الحجرات : 12) یہاں پر بطور خاص بد گمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ
شرعی نہ ہو۔( فتاوی رضویہ،6 / 486)
(3) شاگرد کی تربیت کرنا: استاد کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے شاگرد کی احسن انداز
میں تربیت کرے بد اخلاقی اور خلاف مروت کاموں سے بچنے کی تلقین کرتا رہے اور اس میں
بھی محبت کا عنصر غالب رکھے ۔
(4) شاگرد کی خیر خواہی:استاد کو چاہیے کہ جتنا ممکن ہو سکے شاگرد کے ساتھ خیر خواہی
کا اہتمام کرتا رہے خواہ یہ خیر خواہی کرنا پڑھائی کے معاملات میں ہو یا کہ دنیاوی
معاملات میں جیسا کہ امام محمد رحمۃُ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ اسد ابن فرات کا خرچہ ختم ہو گیا
انہوں نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی نہ کیا جب امام محمد رحمۃُ اللہ علیہ کو معلوم
ہوا تو 80 دینار ان کے پاس بھجوائے۔
(5) شاگرد سے ذاتی خدمات لینے سے اجتناب: استاد کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے شاگرد سے ذاتی خدمات لینے بچتا رہے اور
اگر کسی مجبوری کے تحت شاگرد سے کوئی کام کروا بھی لے تو خفیہ و احسن انداز سے اس
کی تلافی کر دے ۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایک مثالی استاد اور فرمانبردار
شاگرد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اُس علم پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی
توفیق بخشے جو اس نے اپنی رحمت سے ہمیں عطا فرمایا اور ہر چیز کو اس کے حقوق کے
ساتھ ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم