محمد وسیم عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان میلاد کامرہ اٹک پاکستان)
اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر رشتہ دار ہر ملازم الغرض
ہر انسان یہاں تک کہ کافر کے بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں ان حقوق میں شاگرد کا بھی
شمار ہوتا ہے آئیے جانتے ہیں کہ استاد پر شاگرد کے کیا کیا حقوق ہیں۔ جب انسان تعلیم
دینے میں مشغول ہو تو سمجھ لے کہ اس نے ایک
اہم ذمہ داری اپنے سر پرلی ہے۔اس کے کچھ
آداب و قواعد ہیں جن کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
(1) پہلا ادب یہ ہے کہ شاگردوں پر شفقت کرے اور ان کو اپنے بیٹوں
کے برابر سمجھے جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے: میں تمہارے حق میں ایسا ہوں جیسے
باپ اپنے بیٹے کے حق میں۔(ابو داؤد ،نسائی) مطلب یہ کہ استاد اپنے شاگرد کو آخرت کے عذاب سے اس طرح بچائیں جس طرح ماں
باپ اپنے بچوں کو دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں اور آخرت کی آگ سے بچانا دنیا کی آگ سے
بچانے سے زیادہ اہم ہے اسی لئے استاد کا حق ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے ۔
(2) دوسرا
ادب یہ ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں صاحبِ شریعت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
اتباع کریں یعنی علم سکھانے میں کسی طرح کے بدلے کی خواہش نہ رکھے نہ شکر اور
احسان شناسی کا خواہ ہوں بلکہ اسے خود اپنے شاگردوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور
کہ معلمی کا یہ منصب مجھے ان ہی کے طفیل سے ملا ۔اور یہ گمان کرے کہ اگر یہ شاگرد
نہ ہوتے تو مجھے یہ معلمی کا منصب اور اتنا ثواب کہاں سے ملتا۔ اسی وجہ سے اللہ
نے فرمایا: ﴿قُلْ لَّاۤ
اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اُجرَت
نہیں مانگتا۔(پ25، شوریٰ:23)
(3) تیسرا
ادب یہ ہے کہ شاگردوں کو نصیحت کرنے میں کوئی بھی کمی نہ برتے مثلاً اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ بغیر علم
سیکھے بہت بڑے منصب پر قائم ہوجائے تو انہیں سمجھائے کہ علم کو اللہ کی رضا کے لیے
حاصل کرے نا کہ مال و دولت و شہرت کے لیے۔
(4)چوتھا ادب یہ ہے جو
بہت اہم ہے کہ شاگرد کو برے اخلاق سے اشارتاً اور پیار سے منع کردے اس میں کبھی
کوتاہی نہ کرے لیکن کھلے الفاظ میں ڈانٹ وغیرہ نہ کرے کہ صاف الفاظ میں کہنے سے اس کے عیب کھلے گیں۔
(5) پانچواں
ادب یہ ہے کہ استاد اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ کہے کچھ اور کرے
کچھ۔ اس لیے کہ اگر استاد کے علم اور عمل میں تضاد ہو گا تو استاد سے ہدایت نہ ہو سکے گی۔ مثلاً جو شخص ایک چیز کو کھا رہا ہوں اور دوسروں کو زہر
قاتل کہہ کر منع کر رہا ہوں تو لوگ اس کے حکم ماننے کے بجائے اس کا مذاق اڑائیں
گے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿اَتَاْمُرُوْنَ
النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب
پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔ (پ1،البقرۃ:44)
(6) جب استاد
کو شاگرد کی کم عقلی کا علم ہوجائے تو اب اس سے وہ باتیں بتائے جو اسے سمجھ آ جائے
اور اس کے لئے مناسب ہوں۔
(7) ساتواں ادب یہ ہے کہ استاد جو علم پڑھا رہا ہے
تو دوسرے علم کی برائی نہ کرے مثلاً اگر وہ علم کلام پڑھا رہا ہے تو ہرگز یہ نا
کہے فقہ ایک مستقل علم نہیں ہے بلکہ فرع ہے۔ یہ عادت بہت بری اس سے بچنا ضروری ہے۔ بلکہ اگر استاد ایک علم پر مامور ہے تو دوسرے
علوم سیکھنے کے مواقع فراہم کرے۔
تمام اساتذہ ان پر عمل کی نیت فرمائیں انشاء اللہ اس کی
برکت سے طلبا استاد سے محبت بھی کریں گے اور ایک اچھے اور ماہر اور قابل بن کر
ابھریں گے۔
اللہ پاک ہمیں حقیقی طور اپنے منصب کو اس کے حقوق سے ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔