انسانوں میں ادب و احترام کی سمجھ بوجھ روز اول سے ہے۔
اسلامی تعلیمات،خصوصاً قرآن میں تہذیبِ نفس اور کردارسازی میں ادب کو جو اہمیت
حاصل ہے وہ بالکل واضح ہے۔ اور بے ادبی وہ گہرا کنواں ہے جس میں گر کر انسان ذلت و
رسوائی کی گہرائی میں چلا جاتا ہے ۔یہی وجہ ۔۔۔۔بلکہ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے ۔
الدین کلہ ادب ، دین سارے کا سارا ادب ہے ۔
الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :
کردم از عقل سوالے کہ بگو ایمان
چیست
عقل در گوش دلم گفت کہ ایمان
ادب است
میں نے عقل سے پوچھا کہ بتا ایمان کیا ہے ؟ عقل نے میرے دل
کے کان میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔(فتاویٰ رضویہ ،23/393)
معلوم ہوا ادب کرنا حضور کی تعلیم ہے۔ پس جس نے حضور کی ہی
تعلیمات کو اپنا لیا وہ با نصیب ہوا ورنہ بد نصیب۔
(1) الله پاک کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ
جب خدائے قہار و جبّار کا ذکر ہو تو دل ڈرنے لگے۔ اللہ پاک نے فرمایا :الَّذِیْنَ اِذَا
ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ
وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِۙ-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳۵) ترجمۂ کنزالایمان: کہ جب
اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو افتاد پڑے اس کے سہنے والے اور
نماز برپا(قائم) رکھنے والے اور ہمارے دئیے سے خرچ کرتے ہیں۔(پ17، الحج:35 )
(2) ایک ادب یہ بھی ہے کہ اچھے اعمال کرتا رہے اور اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہ کرے۔ قُلْ
اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ
وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا
وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰)ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی
آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے
چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔(پ16،الکھف:
110)
(3) ایک ادب یہ بھی ہے کہ خوب اعمال کرنے با وجود جب اللہ کا
ذکر ہو تو روئے اور گڑگڑائے۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ
اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور
اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں
پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ۔(پ17،الانبیآ: 90 )
(4) ایک ادب یہ ہے کہ جب بھی مسجد میں جائے تو اچھے کپڑے اور جو
بھی زینت شرعاً جائز ہے وہ کرے۔ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ
خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا
تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو
جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند
نہیں۔ (پ8، الاعراف :31 )
اللہ پاک ہمیں بے ادبی اور بے ادبوں سے بچائے ۔ آمین بجاہ
النبی الامين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم