ادب دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور سعادتوں کے حصول
کا ذریعہ ہے۔ اس کی تعلیم خود ربِّ کائنات نے اپنے پیارے نبی، مکی مدنی، محمد عربی
ﷺ کو ارشاد فرمائی،چنانچہ حضور خاتم النبیین ﷺنے ارشاد فرمایا:اَدَّبَنِيْ
رَبِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِيْ یعنی مجھے میرے ربّ کریم نے ادب سکھایا
اور بہت اچھا ادب سکھایا۔(جامع صغیر، ص25، حدیث:310)
ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الٰہی میں حضوری کا خیال
رکھے۔ ابو علی دقّاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بندہ اطاعت سے جنت تک اور اطاعتِ الٰہی
میں ادب کرنے سے اللہ پاک تک پہنچ جاتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص 316)
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:
1:وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ
طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ0(الاعراف: 56)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ سے دعا کرو ڈرتے
ہوئے اور طمع کرتے ہوئے۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس
آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں دعا مانگنے کا یہ ادب ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
جب بھی دعا مانگو تو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے
ہوئے دعا کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں،
اس سے ان شاء اللہ الکریم جلد قبول ہوگی۔
2:اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (النور: 51) ترجمہ کنز العرفان: مسلمانوں کی بات تو
یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے
درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب
ہونے والے ہیں۔
اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو شریعت کا ادب
سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک
اور اس کے رسولِ کریم ﷺ کی طرف بلایا جائے تاکہ رسولِ اکرم ﷺ ان کے درمیان اللہ
پاک کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا
سُنا اور اسے قبول کرکے اطاعت کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں، وہی لوگ کامیاب ہونے
والے ہیں۔( خازن،النور، تحت الآیۃ: 51،3 / 359)
3:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ
قٰنِتِیْنَ0
(البقرۃ: 238)ترجمہ کنز العرفان: تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی
نماز کی اوراللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔
اس آیتِ مبارکہ میں پنجگانہ فرض نمازوں کو ان کے
اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ شریعت کے
دیگر معاملات میں حکمِ الٰہی پر عمل اسی صورت میں ہوگا جب دل کی اصلاح ہوگی اوردل
کی اصلاح نماز کی پابندی سے ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ تمام نمازوں کی پابندی و
نگہبانی کرو، اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا،باجماعت پڑھنا،درست پڑھنا،صحیح وقت
پر پڑھنا سب داخل ہیں۔ درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، اور درمیانی نماز
سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز اس آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہونے کا
طریقہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ادب سے کھڑا ہوا جائے، لہٰذا کھڑے ہونے کے ایسے طریقے
ممنوع ہوں گے جس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہو۔ (صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ:
238)
4:وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ
رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَاؕ-قُلِ
اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًاؕ-اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ0(یونس: 21)ترجمہ کنز العرفان: اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف
پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں
سازش کرنا ہوجاتا ہے۔تم فرماؤ:اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک
ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب
العالمین کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات
کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے، جیسے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ پاک کی شان بیان
فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور
شفا کو اللہ پاک کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ0(الشعراء:80)ترجمہ کنزُالعِرفان:اور جب میں بیمار ہوں تو وہی
مجھے شفا دیتا ہے۔( صراط الجنان، یونس، تحت الآیۃ: 21)
یاد رہے!اچھے بُرے تمام افعال جیسے ایمان،کفر،اطاعت
اور معصیت وغیرہ کا خالق اللہ پاک ہے اور ان افعال کو پیدا کرنے میں اللہ پاک کا
کوئی شریک نہیں، بُرے افعال کو بھی اگرچہ اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے، لیکن اس کے
ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں ان افعال کی نسبت اللہ پاک کی طرف نہ کی
جائے۔ (تفسیر قرطبی،صٓ،تحت الآیۃ:41، 8/155)
اسی ادب کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام نے تکلیف
اور ایذا پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے۔ ( صراط الجنان،صٓ،تحت الآیۃ:
41) جیساکہ قرآنِ مجید میں ہے:وَ
اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ
بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ0(صٓ: 41)ترجمہ کنز العرفان: اور ہمارے بندے ایوب کو
یاد کروجب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا پہنچائی ہے۔
5:تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ0 (المائدۃ:
116)
ترجمہ کنز العرفان:تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے
اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔
یہاں علم کو اللہ پاک کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ
اس کے سپرد کردینا اور عظمتِ الٰہی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی شانِ ادب ہے۔ اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اور بےادبی و بے ادبوں سے
محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
محفوظ سدا
رکھنا شہا بےادبوں سے اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بےادبی ہو