جس طرح دنیا میں اگر کسی کی عزت کرتے ہیں تو جب ہم اس کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو اس کی بارگاہ کا ادب کرتے ہیں اس کی بارگاہ میں جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں،اسی طرح بارگاہِ الٰہی میں جانے کے بھی کچھ آداب ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی (پ7، المائدۃ، 119)

حدیث شریف میں ہے:اِنَّ اللّٰهَ تَعالٰي يَتَجَلَّي لِلْمُؤمِنِینَ فَیَقُوْلُ سَلُوْنِي فَيَقُوْلُوْنَ رِضَاكَبے شک اللہ پاک مومنوں پر تجلی فرماکر ارشاد فرمائے گا:مجھ سے سوال کرو! تو وہ عرض کریں گے:ہم تیری رضا کے طلب گار ہیں۔پس دیدار کے بعد رضا کا سوال کرنا بہت بڑی فضیلت ہے۔حدیثِ مبارکہ میں ہے:اللہ کے محبوب،دانائے غیوب،منزه عن العيوب ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت سے استفسار فرمایا :تم کون ہو ؟ انہوں نے عرض کی:ہم مومن ہیں۔ آپ نے پھر پوچھا:تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی:ہم آزمائش پر صبر کرتے ہیں،فراخی میں شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ پاک کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں۔تو آپ نے ارشاد فرمایا: رب کریم کی قسم! تم مومن ہو۔ (ایک اور روایت میں ہے) کہ آپ ﷺ کا فرمانِ حکمت نشان ہے:قریب تھا کہ حکما،علما اپنی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ) کی بدولت انبیا ہوتے۔(الزهد الکبیر للبیہقی،ص 354،حدیث:970)

اللہ پاک نے ارشادفرمایا:(1)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ:165 ) ترجمہ: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابرکسی کی محبت نہیں۔اور فرمایا(2)یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-(پ5، المائدۃ: 54) ترجمہ کنز الایمان:وہ اللہ کے پیارے اللہ ان کا پیارا۔

حدیثِ پاک میں ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔(صحیح مسلم،ص 188، حديث: 168)

محبت کا معنی: محب کے نزدیک محبت کے لذیذ ہونے کی وجہ سے طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور بغض اس کی ضد ہے جو کسی چیز سے طبعی نفرت کا نام ہے، کیونکہ وہ طبیعت کے موافق نہیں ہوتی اور جس چیز کی لذت بڑھتی ہے اس کی محبت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے،آنکھوں کی محبت دیکھنے میں،کانوں کی لذت سننےمیں اورناک کی لذت پاکیزہ خوشبوؤں میں ہے۔ اسی طرح ہر چیز کے موافق ایک چیز ہے جس سے انسان لذت حاصل کرتا ہے اور اسی سبب سے اس چیز سے محبت کرتا ہے۔ حضور پاک،صاحب ِلولاک، سیاحِ افلاک ﷺ کایہ فرمانِ عالیشان ہے:حُبِّبَ اِلَيَّ مِن دُنياكم:النِّساءُ والطِّيبُ و جُعِلَتْ قُرَّةُ عيني في الصَّلاةِتمہاری دنیا میں مجھے 3 چیزیں محبوب ہیں:(1)خوشبو(2)عورتیں(3)اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ0ترجمہ:بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ،بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

تو ارشاد فرمایا: تعجب کی بات ہے خود ہی دیتا ہے اور خود ہی تعریف ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اس نے اپنے دینے پر ا س کی تعریف کی تو گویا اپنی تعریف کی پس ولی تعریف کرنے والا اور اسی کی تعریف کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ ابو سعید مہینی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسی نظر سے دیکھا جب ان کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی: یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ(پ5، المائدہ، 54) ترجمہ کنز الایمان: وہ اللہ کے پیارے اللہ ان کا پیارا۔ تو انہوں نے فرمایا: میری عمر کی قسم ! اللہ پاک انہیں چاہتا ہے، انہیں پسند کرتا ہے اور انہیں پسند کرسکتا ہے کیونکہ وہ (اس طرح ) آپ کو چاہتا ہے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا:هَؤُلَاءِ فِي الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي، وَهَؤُلَاءِ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِي وہ جنت میں ہوں تب بھی مجھے پروا نہیں اور وہ دوزخ میں تب بھی مجھے کوئی پروا نہیں۔ (مسند امام احمد، 9/255-256، حدیث: 17686)

خوف اور امید دو لگا میں ہیں جن کے ذریعے اس شخص کوقابو میں کیاجاسکتا ہے،جس کے دل میں جمالِ حق ظاہر نہ ہوا ہو اور جس نے دل کے ساتھ اس جمالِ حق کا مشاہدہ کر لیا وہ خوف کے درجہ سے بلند ہو گیا۔ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان حجاب ہے اور جب دلوں پر حق ظاہر ہو جائے تو اُن میں امید و خوف کی کوئی فضیلت باقی نہیں رہتی۔ وہ کلام یہ ہے کہ جب محب محبوب کے جمال کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی توجہ فراق کے خوف سے محبوب کے وصال کو ضائع کر دیتی ہے، لیکن ہم اس کےمقامات کی ابتدا کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے اوپر خوف طاری کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان شدتِ عذاب و حساب کے بارے میں وارد ہونے والی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ میں غور و فکر کرے اور اللہ پاک کی عظمت و جلال کے مقابلے میں اپنی حالت دیکھے اور( حدیثِ قدسی میں مذکور) الله کے اس فرمان پر غور کریں جو اوپر وارد ہے۔

حضرت ابو موسی دیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا:تَوَکُّل کیا ہے ؟ انہوں نے مجھ سے استفسار فرمایا:تم کیا کہتے ہو؟میں نے کہا:ہمارےاصحاب تو فرماتے ہیں کہ اگر درندے اور سانپ تمہارے دائیں بائیں ہوں تو بھی تمہارے باطن میں کوئی حرکت نہ ہو۔تو حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: ہاں۔یہ تَوَکُّل کے قریب ہے لیکن اگر اہلِ جنت جنت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں اور جہنمیوں کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہو، پھر تم ان دونوں کے درمیان تمیز کرنے لگو تو تَوَکُّل سے نکل جاؤ گے۔ اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آ ٓفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے،جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کافروں سے کلام کےدوران جب اللہ پاک کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ پاک کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ0 اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا عطا فرماتا ہے۔ ان سب سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی بارگاہِ الٰہی کا ادب کرنا چاہیے۔اللہ ہمیں بھی ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ