یا الہی
دکھا ہم کو وہ دن بھی تو
آبِ زم زم
سے کرکے حر م میں وضو
باادب شوق
سے بیٹھ کے چار سو
مل کے ہم
سب کہیں یک زباں ہو بہو
اللہ اللہ ھو اللہ
آداب ادب کی جمع ہے جس کا معنی ہے تہذیب و
شائستگی اور آداب کا ایک معنی ۔ مرتبے کا لحاظ ، بھی آتا ہے، ترقی و عروج کا دار
مدار اداب پر ہے جس نے ادب کیا اس نے مقام پایا جو بے ادب تھا، آج اس کا نام و
نشان تک نہیں ہے اگر ہے بھی تو بطورِ عبرت، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل کے نام پاک کا ادب کرنے سے مجھے وہ
مقام حاصل ہوا جو سال کی عبادت و ریاضت سے بھی حاصل نہ ہوسکتا تھا۔آج دنیاداروں کے
عارضی درباروں نے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جو ان کی پیروی نہیں کرتا بلکہ بے
ادب جانا جاتا ہے، اسی طر ح بارگاہ الہی کے بھی آداب ہیں ایک شخص خشوع و خضوع سے
نماز ادا کرتا ہےجب کہ دوسرا لاپرواہی میں صرف فرض پورا کرتا ہے دونوں میں بہت فرق
ہے۔
بارگاہِ الہی کےآداب کثیر ہیں ان میں سے
شعائرہ کا ادب ، عبادا ت کے آداب وغیرہ شامل ہیں۔ آئیے اب ہم بارگاہِ الہی کے آداب
کے ضمن میں چند آیا ت کریمہ پڑھتے ہیں:
(1) قرآن میں غور و فکر کرنا :بارگاہِ الہی کے آداب میں سے پہلا ادب اس کے کلام مجید
قرآن کریم میں غور وفکر کرنا ہے۔رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ- ترجمہ کنزالایمان: تو کیا غور نہیں کر تے
قرآن میں ۔(پ5،النساء:85)اس آیتِ کریمہ میں قرآن کریم میں غور وفکر نہ کرنے پر
تنبیہ فرمائی جارہی ہے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہی کا ادب ہے کہ اس کے کلام میں غور
و فکر کیا جائے۔
(2) نماز میں خشوع و خضوع:بارگاہِ
الہی کے آداب میں یہ بھی ہے کہ افضل عبارت نماز کو خشوع و خضوع سے ادا کیا جائے رب
کریم ارشاد فرماتا ہے: الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ترجمہ
کنزالایمان: جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(پ18،المؤمنون:2)شیخ الحدیث والتفسیر
مفتی محمد قاسم عطاری سلمہ الباری فرماتے ہیں: اس آیت میں ارشاد فرمایا: ایمان
والے خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ
کا خوف ہوتا ہے ان کے اعضا ساکن ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ایمان والے بارگاہِ الہی کے ادب
کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے زینت بخشتے ہیں۔
(3) حج و عمرہ رضائے الہی کے لیے کرنا:حج بیت اللہ اور عمرہ کرنا یقیناً بہت بڑی سعادت کی بات
ہے اللہ پاک
ہر مسلمان کو یہ سعادتیں زندگی میں بار بار نصیب فرمائے لیکن حج و عمرہ کرنا مقبول
اسی وقت ہوگا جب یہ کام بارگاہِ الہی کے ادب کا لحاظ کرتے ہوئے رضائے الہی کے لیے
کیے جائیں ، اس کی طرف ترغیب دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور حج و عمرہ اللہ کے
لیے پورا کرو۔(پ2،البقرۃ:196)شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری سلمہ
الباری فرماتے ہیں، آیت سے مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو اس کے فرائض و شرائط
کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ
کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔(صراط الجنان،1/313)
اس سے معلوم ہوا کہ اس بارگاہ پاک بے نیاز کا
ادب یہی ہے کہ اس کے پاک گھر کی زیارت بھی کی جائے تو صرف مقصود اسی کی ذات ہو
لوگوں کو دکھانے اپنے آپ کو حاجی کہلوانے کے لیے نہ ہو۔