پیارے اسلامی بھائیو! والدین وہ ہستی ہیں کہ جو خود مشقتیں برداشت کرکے بھی اپنے بچوں کو پالتے پوستے ہیں ان کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں اگر بچہ تکلیف میں ہو تو اس کے والدین بھی بے چین ہوجاتے ہیں اسے طبیبوں اور حکیموں کے پاس لئے پھرتے ہیں غرض کہ جس قدر ممکن ہوتا ہے اپنی اولاد کو آرام و سکون فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

بالخصوص ماں کی بچوں پر شفقت اور بچوں سے پیار کے تو کیا کہنے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو خود بھوکی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔ خود گیلے بستر پر سو جاتی ہے لیکن اپنے بچوں کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو اپنے بچے کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرنا شروع کر دیتی ہے اسی وجہ سے ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے کیونکہ بچہ سیکھنے کی ابتداء اپنی ماں کی گود سے ہی کرتا ہے اور اس کی ماں ہی اس کی پہلی استانی ہوتی ہے کہ جو اسے اچھے بُرے کی تمیز سکھاتی ہے اسے اس دنیا میں موجود اشیاء کی پہچان کرواتی ہے۔

لہٰذا والدہ کا مقام و مرتبہ احادیث کریمہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں دعا ہے کہ اللہ پاک حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے

احادیثِ کریمہ:-

(1) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَلجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّھَاتِ یعنی جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔(مسند الشھاب، ج١، ص ١٠٢، حدیث ١١٩)یعنی: ان سے بھلائی کرنا، ان کا کہا ماننا، اور ان کے آگے اُف تک نہ کہنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔بہارِ شریعت میں صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا۔(بہارِ شریعت، حصہ ١٦، صفحہ ٨٨)لہٰذا جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہیں ان کو چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک بار ان کے ہاتھ پاؤں ضرور چوما کریں۔

(2) سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کیلئے ہر نظر کے بدلے حجِّ مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے! فرمایا: نَعَمْ اللہ اکْبَرُ و اطْیَبُ یعنی ہاں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور اطیَب (یعنی سب سے زیادہ پاک) ہے۔ (شُعَبُ الایمان، ج ٢، ص ١٨٦، حديث ٧٨٥٦)

یقینًا اللہ پاک ہر شے پر قادر ہے، وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے، ہر گز عاجز و مجبور نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف 100 بار بھی رحمت کی نظر کرے تو وہ اُسے مقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا سو جن کے والدین حیات ہیں انہیں چاہیے کہ بغیر کسی خرچ کے بالکل مفت ثواب کا خزانہ حاصل کریں، خوب ہمدردی اور پیار و محبت سے ماں باپ کا دیدار کریں۔

(3)والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سَبُکدوش (یعنی بریُّ الذّمہ) ہونا ممکن نہیں ہے چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ (6) میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیا ہوں؟ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قدر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں شاید اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔(اَلمُعجَمُ الصَّغِیر لِلطّبَرانی، ج ١، ص ٩٢، حديث ٢٥٦)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی ماں نے اپنے بچے کیلئے سخت تکلیفیں اٹھائی ہوتی ہیں، دردِ زِہ یعنی بچے کی ولادت کے وقت ہونے والے درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔

میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: عورت کو صدہا مصائب کا سامنا ہے، نو (9) مہینے پیٹ میں رکھتی ہے کہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، پھر پیدا ہوتے وقت تو ہر جھٹکے پر موت کا پورا سامنا ہوتا ہے، پھر اَقسام اَقسام کے درد میں نِفاس والی (یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کی تکلیف میں مبتلا ہونے والی) کی نیند اُڑ جاتی ہے۔

اسی لئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے ہے۔(پارہ ٢٦، الاحقاف، ١٥)

تو ہر بچے کی پیدائش میں عورت کو کم از کم تین برس بامَشَقَّت جیل خانی ہے۔ مرد کے پیٹ سے اگر ایک دفعہ بھی چوہے کا بچہ پیدا ہوتا تو عمر بھر کو کان پکڑ لیتا۔(فتاویٰ رضویہ، ج ٢٧، ص ١٠١، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاھور)

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے والدین خصوصًا والدہ کی قدر کریں ان کی خدمت میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے اُسے بجا لائیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتَمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو! والدین بہت عظیم ہستیاں ہیں۔ والدین کا جتنا ہو سکے ادب کرنا چاہیے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا چاہئے احادیث مبارکہ میں والدین کی فرمانبرداری کی اہمیت بیان کی گئی یہاں ہم والدہ کی فرمانبرداری کے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں!

حضرت سیدنا ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: الله عزوجل کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ پسندیدہ ہے ؟ ارشاد فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے عرض کی: پھر کون سا ہے ؟ ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد: 3 حدیث: 314)

حضرت سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ ارشاد فر مایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی، پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی کہ پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ اور ایک روایت میں یوں ہے اس شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ پھر تمہارا قریبی۔ پھر تمہارا قریبی۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 حدیث:316)

ماں کا حق زیادہ ہونے کا سبب اور معنی: ماں کا حق زیادہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ بچے کی ولادت اور حمل و غیرہ کے سلسلے میں ماں انتہائی سختیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ ماں کا حق زیادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدمت کرنے اور دینے میں ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی جیسےکوئی چیز دونوں کو دینی ہو تو پہلے ماں کو دے، یہ نہیں کہ ماں باپ میں جھگڑا ہو تو ماں کی طرف داری میں باپ کو اذیت و تکلیف دینا شروع کر دے، البتہ تعظیم میں باپ مقدم ہے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


محترم پیارے اسلامی بھائیو الله پاک نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت والده بھی ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ماں کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ اور جو شخص ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے وہ دنیا میں شاد و آباد رہنے کے ساتھ ساتھ وہ عزتيں اور رفعتیں بھی پاتا ہے۔

آئیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کی روشنی میں والده کی فرمانبرداری کے متعلق پڑھتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2) حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک 4/96 الحدیث 5978)

(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

محترم اسلامی بھائیوآپ نے پڑھا کے والده کی اطاعت و فرمانبرداری کا کتنا اجر و ثواب ہے۔

الله کریم کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور جن کی والده اس دنیائے فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو عورت ماں کے روپ میں وہ عظیم ہستی ہے کہ جس کا وجود باعث برکت ہے۔ جو گھر کی زینت ہے۔ گھر کا سکون جس کے دم سے قائم رہتا ہے۔ جسے محبت کے ساتھ دیکھنے سے حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔جس کی خدمت رضائے الٰہی کا سبب ہے اور جس کے بغیر گھر اجڑا ہوا چمن لگتا ہے۔ ماں کے احسانات کی کوئی حد نہیں۔ ماں تکلیفوں پر صبر کرتی ہے۔ آئیے ہم ماں کی فرمانبرداری احادیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2)حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

(3)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہاپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ ماں کی فرمانبرداری کا حکم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے۔

ایک صحابی رضی الله عنہ نے حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کے اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے گیا ہوں۔ کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ؟ الله کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔ (معجم صغیر جلد 1 صفحہ 92 حدیث 257)

الله کریم کی بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے الله ان کا سایہ ہم پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

محترم پیارے اسلامی بھائیو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت والده بھی ہے۔ ہمیں ایسی نعمت کی قدر کرتے ہوئے الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ اور جو شخص ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے وہ دنیا میں شاد و آباد رہنے کے ساتھ ساتھ وہ عزتيں اور رفعتیں بھی پاتا ہے۔

آئیں حدیث مبارکہ میں والدہ کی شان و عظمت کے متعلق احادیث مبارکہ سنتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2)حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہاپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

محترم اسلامی بھائیوآپ نے پڑھا کے والده کی اطاعت و فرمانبرداری کا کتنا اجر و ثواب ہے۔

الله کریم کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور جن کی والده اس دنیائے فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہوتی ہے، جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے، جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے، جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے، لیکن آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، مارتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے خود کے گھر سے اس کو نکال دیتے ہیں۔جبکہ جس محبوب کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے انہوں نے ماں کی شان و عظمت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے آیئے پڑھتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، حدیث: 5971)

حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔ یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

پیارےاسلامی بھائیو! ان دونوں احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ والدہ کے ساتھ ہر حالت میں اچھا سلوک کیا جائے گا یہاں تک کہ اگر والدہ کافرہ یا مشرکہ ہے تب بھی اس کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کیا جائے گا نہ کہ اسے برا بھلا کہا جائے گا اور والدہ کے مسلمان ہونے کی صورت میں تو بالخصوص اس کی فرمانبرداری کی جائے گی۔

ماں کی فرمانبرداری کی وجوہات:

والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ کنزالعرفان:میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔(لقمان:14)

اس آیت میں الله رب العزت نے جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی۔

والدین کے حوالے سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین بھی حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتٰی الامکان سعی کی، اس طرح بڑھاپے میں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں، اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی ہے۔ جبکہ بڑھاپے ان کی خدمت نہ کرنے والوں وعید بھی سنائی ہے، جیسا کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:رغم انف ثم رغم انف ثم رغم انف من ادرك أبويه عند الكبر احدهما او كليهما فلم يدخل الجنه یعنی س کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی میں ہو جو اپنی ماں کو بڑھاپے میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو۔(رواہ مسلم)

جنت ماں کے قدموں تلے ہے، اگر ہم جنت چاہتے ہیں تو جس طرح ماں نے آپ کو بچپن میں پالا تھا اسی طرح آپ بھی ان کی خدمت کیجیے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دنیا میں والدہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی نِعمَ البدل نہیں ہے، والدہ سے زیادہ اولاد سے محبت کرنے والا کوئی اور نہیں، والدہ کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے، والدہ اپنے بچوں کے لئے جیتی ہے اور بچے اس کی سب سے بڑی دولت ہوتے ہیں۔ آیئے! والدہ کی اطاعت و فرماں برداری اور عظمت کے بارے میں 5احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)حُسنِ سلوک کا حق دار: ایک شخص رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے حُسنِ سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ علیہ السّلام نےفرمایا:تیری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پوچھا پھر کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرا والد۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)

(2)جنّت میں داخلے کی ضمانت: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں جنّت میں داخل ہوا تو میں نے سنا کہ وہاں کوئی شخص قراٰنِ مجید کی قراء ت کررہا ہے، جب میں نے پوچھا کہ قراءت کرنے والا کون ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ آپ کے صحابی حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ ہیں، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے میرے صحابیو! دیکھ لو یہ ہے نیکوکاری اور ایسا ہوتا ہے اچھے سلوک کا بدلہ، حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ سب لوگوں سے زیادہ بہترین سلوک اپنی ماں کے ساتھ کرتے تھے۔(جنتی زیور، ص556)

(3)ماں کی نافرمانی کرنا حرام: ہم اپنی تیز زبان اس ماں کے سامنے نہ چلائیں جس نے ہمیں حرف حرف بولنا سکھایاہے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ گرامی ہے:اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بدسلوکی کو حرام کر دیا ہے۔(بخاری، 2/111، حدیث: 2408)

(4)ماں کے قدموں تلے جنت: حضرت جاہمہ رضی اللہُ عنہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ کے پاس مشورہ لینے کیلئے حاضر ہوا ہوں، آپ علیہ السّلام نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں، آپ نے فرمایا:اسی کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔(نسائی،ص 504، حدیث: 3101)

(5)ماں کا حق: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ماں کا حق ادا کرتے رہو، اللہ پاک کی قسم! اگر تم اپنا گوشت کاٹ کر اسے دے ڈالو جب بھی اس کا چوتھائی حق ادا نہ ہوگا۔(درة الناصحين، ص241)

پیارے اسلامی بھائیو! ماں کی شان و عظمت کے کیا کہنے! کہ ایک ماں کی پریشانی دیکھ کر اللہ پاک نے صَفا مَروہ کی سعی کو حج کا رُکن بنا دیا۔ لہٰذا ہمیں ماں سے محبت اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی والدہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔