پیارے اسلامی بھائیو! والدین وہ ہستی ہیں کہ جو خود مشقتیں برداشت کرکے بھی اپنے بچوں کو پالتے پوستے ہیں ان کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں اگر بچہ تکلیف میں ہو تو اس کے والدین بھی بے چین ہوجاتے ہیں اسے طبیبوں اور حکیموں کے پاس لئے پھرتے ہیں غرض کہ جس قدر ممکن ہوتا ہے اپنی اولاد کو آرام و سکون فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

بالخصوص ماں کی بچوں پر شفقت اور بچوں سے پیار کے تو کیا کہنے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو خود بھوکی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔ خود گیلے بستر پر سو جاتی ہے لیکن اپنے بچوں کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو اپنے بچے کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرنا شروع کر دیتی ہے اسی وجہ سے ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے کیونکہ بچہ سیکھنے کی ابتداء اپنی ماں کی گود سے ہی کرتا ہے اور اس کی ماں ہی اس کی پہلی استانی ہوتی ہے کہ جو اسے اچھے بُرے کی تمیز سکھاتی ہے اسے اس دنیا میں موجود اشیاء کی پہچان کرواتی ہے۔

لہٰذا والدہ کا مقام و مرتبہ احادیث کریمہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں دعا ہے کہ اللہ پاک حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے

احادیثِ کریمہ:-

(1) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَلجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّھَاتِ یعنی جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔(مسند الشھاب، ج١، ص ١٠٢، حدیث ١١٩)یعنی: ان سے بھلائی کرنا، ان کا کہا ماننا، اور ان کے آگے اُف تک نہ کہنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔بہارِ شریعت میں صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا۔(بہارِ شریعت، حصہ ١٦، صفحہ ٨٨)لہٰذا جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہیں ان کو چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک بار ان کے ہاتھ پاؤں ضرور چوما کریں۔

(2) سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کیلئے ہر نظر کے بدلے حجِّ مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے! فرمایا: نَعَمْ اللہ اکْبَرُ و اطْیَبُ یعنی ہاں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور اطیَب (یعنی سب سے زیادہ پاک) ہے۔ (شُعَبُ الایمان، ج ٢، ص ١٨٦، حديث ٧٨٥٦)

یقینًا اللہ پاک ہر شے پر قادر ہے، وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے، ہر گز عاجز و مجبور نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف 100 بار بھی رحمت کی نظر کرے تو وہ اُسے مقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا سو جن کے والدین حیات ہیں انہیں چاہیے کہ بغیر کسی خرچ کے بالکل مفت ثواب کا خزانہ حاصل کریں، خوب ہمدردی اور پیار و محبت سے ماں باپ کا دیدار کریں۔

(3)والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سَبُکدوش (یعنی بریُّ الذّمہ) ہونا ممکن نہیں ہے چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ (6) میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیا ہوں؟ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قدر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں شاید اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔(اَلمُعجَمُ الصَّغِیر لِلطّبَرانی، ج ١، ص ٩٢، حديث ٢٥٦)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی ماں نے اپنے بچے کیلئے سخت تکلیفیں اٹھائی ہوتی ہیں، دردِ زِہ یعنی بچے کی ولادت کے وقت ہونے والے درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔

میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: عورت کو صدہا مصائب کا سامنا ہے، نو (9) مہینے پیٹ میں رکھتی ہے کہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، پھر پیدا ہوتے وقت تو ہر جھٹکے پر موت کا پورا سامنا ہوتا ہے، پھر اَقسام اَقسام کے درد میں نِفاس والی (یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کی تکلیف میں مبتلا ہونے والی) کی نیند اُڑ جاتی ہے۔

اسی لئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے ہے۔(پارہ ٢٦، الاحقاف، ١٥)

تو ہر بچے کی پیدائش میں عورت کو کم از کم تین برس بامَشَقَّت جیل خانی ہے۔ مرد کے پیٹ سے اگر ایک دفعہ بھی چوہے کا بچہ پیدا ہوتا تو عمر بھر کو کان پکڑ لیتا۔(فتاویٰ رضویہ، ج ٢٧، ص ١٠١، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاھور)

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے والدین خصوصًا والدہ کی قدر کریں ان کی خدمت میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے اُسے بجا لائیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتَمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔