الله تعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے سرفراز فرمایا جن میں سے ایک نعمت انسان کے والدین بھی ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًاترجمہ کنزالایمان: اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

آیئے والدہ کے پانچ حروف کی نسبت سے والدہ کی فرمانبرداری کے بارے میں پانچ احادیث پڑھتے ہیں:

(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ حسن صحبت یعنی احسان کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا تمہاری ماں یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کا بتایا، انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ارشاد فرمایا تمہارا والد ۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة، الحديث 5971ج 4،ص93)

(2)حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں جس زمانے میں قریش نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا میری ماں جو مشرکہ تھی۔ میرے پاس آئی میں نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اعراض کیے ہوئے ہے۔ کیامیں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا:اس کے ساتھ سلوک کرو۔(صحیح البخاری:كتاب الجزیۃ والموادیۃالحديث 3183 ج 2ص371)

(3)ماں کی دعا اولاد کے لیے جلد قبول ہوتی ہے عرض کی گئی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی کیا وجہ ہے؟ارشاد فرمایا: ماں باپ کے مقابلے میں زیادہ مہربان ہوتی ہے۔(احیاء العلوم ج 2 ص783)

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس کی ناک خاک آلود ہو ؟ ارشاد فرمایا جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم، کتاب البر والاداب، باب رغم میں ادارک ابویہ او اَحَدُهُمَا عِند الكبر ص 321 حدیث2551)

(5)ایک شخص بارگاہ رسالت میں جہاد میں شرکت سے متعلق مشورہ لینے حاضر ہوا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے استفسار فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اِس نے عرض کی جی ہاں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ماں کی خدمت کروجنت ماں کےقدموں کے نیچے ہے۔(سنن نسائی کتاب الجھاد باب الرخصۃ فی التخلف الحدیث 3101 ص 504)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو اللہ عزوجل نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے کچھ رشتے عطا فرمائے جن میں سرفہرست والدین ہیں اور والدین میں سے ماں ہے جو پہلے نو ماہ پیٹ میں رکھتی ہے پھر پوری زندگی ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہے لیکن آج کل معاشرے میں لوگ اپنی والدہ کو گالیاں دینا مار پیٹ کرنا بہت عام ہوتا جارہا ہےاس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو دینی تعلیم تو دیتے نہیں دنیاوی تعلیم میں مصروف رکھتے ہیں اگر بچوں کو دینی تعلیم دی جائے تو وہ ماں باپ کے قدم نہ چومےآئے تو پھر کہنا۔

آئیے ماں کی فضیلت نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زبان سے سنتے ہیں

نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے آنے پر اُن کےلئے اپنی مُبارَک چادر بچھادی۔(ابوداؤد،ج4،ص434، حدیث:5144)

دیکھا پیارے پیارے اسلامی بھائیو اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی رضاعی والدہ ماجدہ کے آنے پر اپنی مبارک چادر بچھادی اور ہم زرا غور کریں کیا ہم اپنی سگی والدہ کی عزت کرتے ہیں ہم تو انہیں اسی گھر سے نکال دیتے ہیں جو انہوں نے ہمارے لیے محنت و مشقت سے بنائے ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ معاشرہ ماں کے ادب و احترام کو کھوتا جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ماں کی فضیلت کا نہیں پتا۔

ماں کی فضیلت نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زبان سے

ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنہ کے تین بار یہ پوچھنے پر کہ میرے حُسنِ سُلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟تین بار فرمایا: تیری ماں، چوتھی بار اسی سوال کے جواب میں فرمایا:تیرا باپ۔(بخاری،ج4، ص93، حدیث: 5971)

پیارے اسلامی بھائیو اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماں کو باپ سے تین گنا زیادہ فضیلت دی ہے۔آئیں ہم بھی عہد کرتے ہیں کہ ہماری جو زندگی رہ گئی ہے اسے اپنی ماں کی اطاعت و فرمانبرداری پر گزاریں گے۔ ان شاءاللہ عزوجل

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو!ماں وہ ہے جس نے ہمیں پالا اور جوان کیا اور ہماری مشکلیں برداشت کی اور بچپن میں بچے کی گندگی کو برداشت کیا۔ یقیناً ماں کا درجہ بہت بلند و بالا ہے۔ ماں کی دعائیں اولاد کے حق میں مقبول ہوتی ہیں۔ ماں کی خوشی ایمان کی سلامتی اور ناراضی ایمان کی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے۔ بس اپنی ماں کو خوش رکھئے۔ ماں کا فرمانبردار ہمیشہ پھلا پھولا اور شاد و آباد رہتا ہے۔ ماں کا دیکھنا بھی عبادت ہے۔

(1)مقبول حج کا ثواب:سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کیلئے حج مقبول کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی اگر چہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے فرمایا ہاں اللہ عزوجل سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ پاک ہے۔(شعب الایمان ج 6 ص 186 حدیث: 185)

یقیناً الله پاک ہرشے پر قاد رہے وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے۔ ہر گز عاجز نہیں لہٰذا اگر کوئی اپنے ماں باپ کی طرف روزانہ 100 تو کیا ایک ہزار بار بھی رحمت کی نظر کرے تو وہ اسے ایک ہزارمقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا۔

(2)جنت ماؤں کے قدموں کے تلے ہے: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرما:جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔(مسند شہاب، ج اص 102 حدیث 119)

(3)جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا:حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاجس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما تو یہ ایسا ہے جیسے جنت کے دروازہ کو بوسہ دیا۔ (درمختار ج9ص202)

(4)آگ کی شاخوں سے لٹکنے والے:حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: معراج کی رات میں نے دیکھا کچھ لوگ آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا۔ اے جبرئیل یہ کون لوگ ہے؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہے جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجر ج 2 ص 139) ان کے ساتھ بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے جو بھلائی کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔

پیارے اسلامی بھائیو!بڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں کے اندر خواہ کتنا ہی چِڑ چِڑا پن آجائے،بلا وجہ لڑیں،چاہے کتنا ہی جھگڑیں اور پریشان کرے،صبر صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا ضروری ہے اُن سے بدتمیزی کرنا،ان کو جھاڑنا ان کے آگے اُف تک نہیں کرنا ہے ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے اور دونوں جہانوں کی تباہی مقدر بن سکتی ہے کہ والدہ کا دل دکھانے والا اِس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی عذابِ نار کا حقدار ہے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک کا بے حد کرم و احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا جو اشرف المخلوقات ہیں اور سب سے بڑا کرم و احسان کہ اس سے ہمیں مسلمان اور اپنے حبیب کی امت میں سے فرمایا اللہ پاک نے انسانوں میں ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسیلے بنائے رشتہ داریاں قائم فرمائیں تاکہ انسان اس دنیا میں خود کو اجنبی اور اکیلا محسوس نہ کرے آج ہم تمام رشتوں میں سب سے عظیم اور پیارے رشتہ کی بات کرتے ہیں اور وہ ہے ماں یہ ایک ایسا عظیم رشتہ ہے کہ شاید ہی کوئی اس رشتہ کی محبت اور احسانات کا انکار کرے۔ اور کیونکر انکار کرےجو نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھے۔ اس کے بعد پوری زندگی اپنی اولاد کی فکر کرتے کرتے گزار دے تو کون کیونکر اس کی محبت کا انکار کرے گا۔ لیکن افسوس آج کل اس مقدس رشتہ ماں کے نافرمان بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو ماں کو گالیاں کستے مارتے پیٹتے ہیں۔ قربان جائیں ماں کے فرمانبرداروں پر جو ماں کے ایک اشارہ میں ان کا کام کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں وہ سرخرو ہوتے ہیں۔ اور احادیث مبارکہ میں بھی ماں کی فرمانبرداری کے متعلق روایات موجود ہیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا مجھے جہاد میں حصہ لینے کی خواہش ہے لیکن اس کی قدرت (طاقت) نہیں رکھتا حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کی میری والدہ زندہ ہیں۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو جب تم ایسا کروگے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں تم حج کرنے والے عمرہ کرنے والے اور جہاد میں حصہ لینے والے شمار ہو گے۔(الترغيب والترھيب ص 13 ج 3)

ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ حضرت جاہمہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں ارشاد فرمایا کیا تیری ماں ہے؟ عرض کی ہاں۔حضور نے فرمایا اس کی خدمت اپنے اوپر لازم کرلے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔(مشکاۃ المصابیح)

اللہ اكبر! حضور علیہ السلام نے ہم لوگوں کو جنت میں جانے کا آسان راستہ بتادیا ماں کی خدمت ماں کی فرمانبرداری اب اس سے ان لوگوں کو سوچنا چاہئے جو ماں کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کو مبارک جس نے ماں کی اطاعت فرمانبرداری و خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے چنانچہ حدیث مبارک میں ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے اس حال میں صبح کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ پاک کا فرمانبردار رہا تو اس کے لئے صبح ہی کو جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔(مشكاة المصابيح)

سبحان اللہ کیا شان ہے ماں باپ کے فرمانبردار کی کہ صبح ہی جنت کے دو دروزے کھل جاتے ہیں۔ ہم سب کو بھی چاہئے کہ ماں باپ کی خوب خدمت و فرمانبرداری کریں ان شآء اللہ اس کی برکت سے دنیا و آخرت میں کامیابیاں ہی کامیابیاں حاصل ہوں گیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جن کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہے ان کو لمبی دراز عمر بالخیر و عافیت عطا فرمائے اور جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ہیں اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں کہ حدیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار ماں ہے اور ماں کا حق مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ماں کو اولادکی تربیت میں زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔

(1) کون لوگ میرے اچھے سلوک کے حق دار ہیں ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ کون لوگ میرے اچھے سلوک کے حق دار ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں کہا پھر کون ؟ فرمایا پھر تمہاری ماں کہا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں کہا پھر کون ؟ فرمایا تمہارا باپ۔ (مسند احمد ج 4 ص 385)

(2) جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔( کنز العمال)

(3) جہنم کی آگ سے حجاب :حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس سےجہنم کی آگ کے لیےحجاب ہوگا۔( کنز العمال ج 14 )

(4) ماں کے پیروں سے چمٹے رہو: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اپنی ماں پیروں سے چمٹے رہووہیں جنت ہے۔(کنز العمال ج 4 ص 43)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! والدہ کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے بعض لوگ ماں کی خدمت اور برکت سے بہت دور رہ جاتے ہیں، ماں کتنی بڑی ہستی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ماں کی خدمت اور ادب و احترام کے حوالےسے وہ چیز نظر نہیں آتی جو آنی چاہیے اور نہ ہی ماں سے اتنی محبت کا اظہار(show) کیا جاتا ہے حالانکہ ہماری زندگی(Our life) میں والدہ کی ایک خاص اہمیت اور کردار ہے۔

اسلام سے پہلے معاشرے میں عورت کو سب سے زیادہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا عورت کی عزت کو پامال کیا گیا۔ حتیٰ کہ ماں کی بھی کوئی قدر نہیں تھی غرض یہ کہ عورت ہر معاملے میں ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔ پس اس دوران ایک ایسی ہستی (ہمارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) ظاہر ہوئی جس نے عورت پر ظلم و ستم کو دور کردیا عورت کے حقوق بحال کئے عورت کو ظلم سے نکال کر عزت و اعلیٰ مقام دیااگر عورت بیٹی تھی تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس رحمت بنا دیا اگر عورت ماں تھی تو ہمارے پیارے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماں کے قدموں تلے جنت بنا دی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے آدمی کو حکم کیاکہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا س کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اُسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے۔

مختصر تفصیل

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا ماں باپ دونوں کے حق میں تاکید فرما کر ماں کو پھر خاص الگ کر کے گنا کہ ماں کا حق بہت زیادہ ہے اولاد کو چاہیئے کہ اپنی ماں کی قدر کرے ان کا حکم مانیں اپنی ماں پر ظلم نہ کرے بلکہ ان کا کہنا مانے کیونکہ ماں اپنی سختیوں اور تکلیفوں کو اپنی اولاد کے لیے برداشت(abide) کرتی ہے۔ ماں کی فرمانبرداری پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں

روزانہ جنت کی چوکھٹ چومئے: جن خوش نصیبوں کی والدہ زندہ ہے ان کو چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک بار اپنی والدہ کے ہاتھ(Hand)پاؤں ضرور چوما کریں والدہ کی تعظیم کا بڑا درجہ ہے

1:-رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت ماوؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشھاب ج 1 ص 102 حدیث نمبر 119 )یعنی والدہ سے بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے ۔

2:- ایک اور مقام پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بھوسا دیا۔(در مختار 9 ص 606 دارالمعرفت بیروت)

بھلائی کرنے والے کا انعام: جو لوگ اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اجر ضرور دیتا ہے ان کا اجر ضائع نہیں ہوتا بلکہ ان کو ضرور بھلائی کا اجر ملتا ہے ماں کے ساتھ بھلائی کرنے والے کے بارے میں حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :

3:- شرح سنہ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے ؟ تو فرشتوں نے عرض کیا حارثہ بن نعمان ہیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(بہار شریعت حصّہ 16 ص 552 شعبہ تخریج المدینۃ العلمیہ دعوتِ اسلامی)

سب سے زیادہ احسان کس پر کیا جائے: پیارے پیارے اسلامی بھائیو جتنا بھی ہوسکے اپنی امی جان کے ساتھ اچھا سلوک کریں کیونکہ اس نے آپ کی پرورش کی ہے اور بھی بہت سارے احسان ہیں جس کا بدلہ ہم نہیں چکا سکتے اس بارے میں حضور پاک نے فرمایا

4:- صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسول اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ حسن صحبت یعنی احسان کا مستحق کون ہے ؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھاری ماں یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر فرمایا تمھاری ماں - انھوں نے پوچھا کہ پھر کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھارا والد۔ ایک اور روایت میں ہے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ فرمایا کہ تمھاری ماں احسان کی مستحق ہے۔( بہار شریعت حصّہ 16 شعبہ تخریج المدینۃ العلمیہ دعوتِ اسلامی)

والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان کے حقوق کو پوری(complete) طرح ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔

گرم پتھروں پر ماں کو گندھوں پر اٹھانے والا صحابی:ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی میں عرض(Asked) کی! ایک راہ (path)میں ایسے گرم پتھر تھے اگر گوشت کا ٹکڑا(piece) ان پر ڈالا جاتا تو وہ کباب ہو جاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر(کندھوں پر) سوار کر کے چھ میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں ؟

5:-رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔( المعجم الصغیر للطبرانی ج1 ص94 حدیث 256)

پیارے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو! ماں اپنے بچے کے لیے سخت تکلیفیں اٹھاتی ہے بچے کی ولادت (Delivery) کے وقت درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے جتنا ہو سکے اپنی ماں کی کبھی بھی نا فرمانی نہ کیا کریں جنت میں داخلے کی محرومی کا سبب بھی ہوسکتا ہے جو بھی ماں جائز حکم کرے اسے فوراً پورا کیا کرو۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والدین بچپن میں جیسی محبت و شفقت بچے پر کرتے اور اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات خیال کرتے ہیں۔اور اس کی تکالیف کو ہمیشہ دفع کرنے کی ہی سعی میں رہتے ہیں۔لہٰذا اس بچے کو بھی چاہیے کہ والدین کے بڑھاپے میں خاص کر ان کی خدمت کرے اور ان کی خدمت میں اپنی جان کھپا دے اور خوب دنیا و آخرت کی برکتیں سمیٹ لے۔اپنے والدین کو نعمت سمجھتے ہوئے ان کی قدر کرنا اپنی جان پر لازم کرنا چاہیے اور لمحہ بھر بھی ان کی نافرمانی کا ہرگز مت سوچیں۔

آئیے ہم والدین بالخصوص والدہ کے حقوق کے متعلق احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

ایک شخص نے خدمت اقدس حضور پر نور صلی لله تعالی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر، فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر، فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر، فرمایا: تیرا باپ۔ (صحيح البخاري، كتاب الأدب، الحديث: ٥٩٧١، ج 4، ص ٩٣)

فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشهاب ج ا ص 102 حدیث 119)

بہار شریعت حصہ 16 صفحہ 88 پر ہے: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے، حدیث میں ہے جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا۔ (در مختارج ٩ ص ٦٠٦ دار المعرفة بيروت)

پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث مذکورہ بالا سے والدین کی عظمت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ہر بندہ ماں کی ممتا کی لاج رکھتا اور اپنی جان و مال کو والدین پر خرچ کرنے کو باعث خیر سمجھتا مگر افسوس معاشرے میں ناقابل بیان درد ناک داستانیں رقم ہوتی دکھتی ہیں تو روح مع الجسد کانپ جاتی ہے۔

بہار شریعت حصہ 16 صفحہ 195 صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ الله علیہ نقل کرتے ہیں: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان حقیقت نشان ہے، یہ بات کبیرہ گناہوں میں ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ فرمایا ہاں، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (مسلم شریف ص 60 حدیث 146)

حدیثِ مبارکہ میں والدین کو گالی دلوانے کی مذمت ذکر کی گئی ہے یقیناً ہر مسلمان کو اپنے والدین کی دل آزاری کسی بھی ذریعے سے کرنے سے بچنا چاہیے اور خوش نصیب والدین کی خدمات انجام دے کر جنت کے قریب تو ہوتے چلے جاتے ہیں مگر افسوس بد نصیب لوگ ماں باپ کو خود گالیاں بکتے پھرتے ہیں۔ الامان و الحفیظ

اللہ پاک ہمیں والدین کے اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ماں ایک رحم دل اور شفیقہ خاتون ہے جو اپنی اولاد کی زندگی میں ایک درخت کی جڑ کی مانند ہے جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرتی ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کردیتی ہے اپنی خوشیوں کو مٹی تلے دفن کردیتی ہے جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اس پاکیزہ رشتے کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ماں کے حقوق کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے ماں پر ظلم کیا جا رہا ہے کچھ بد بخت تو اپنی ماں کو برا بھلا کہتے ہیں گالیاں دیتے ہیں مارتے ہیں یہاں تک کہ اسے اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں۔

حالانکہ یہ تو وہ رشتہ جس کے حقوق خود الله پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمائے اور الله پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں اس کی تلقین فرمائی۔

چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)

آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے شرک سے منع فرمانے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور ان کے آگے اف تک نا کہنے کا ارشاد فرمایااگر ذہن میں یہ بات آئے کہ اف تک بھی نہیں کہنا آخر ایسا کیوں؟ تو فوراً اپنے اوپر اپنی ماں کے احسانات کو یاد کیجئے ان تکالیف کو یاد کیجئے جو نو ماہ انہوں نے اپنے پیٹ میں آپ کو رکھ کر برداشت کی پھر پیدائش کے وقت کی الگ تکالیف سخت سردی کی رات میں خود گیلے بستر پر سو کر آپ کو خشک بستر پر سلایا آپ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی اپنی پسند کو آپ کی پسند پر قربان کر دیا خود بھوکی رہ کر تمہیں پیٹ بھر کھلایا تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوئے اف تک نا کہا جائے ۔

کثیر احادیث میں بھی والدہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں :

ماں کے ساتھ حسن سلوک :حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 2/93 الحدیث: 5971)

حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔ (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک،2/92، الحدیث: 5978)

یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

ماں سے حسن سلوک کا انعام :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 2/222، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔ (شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 2/182، الحدیث: 7851)

انسان اپنی والدہ کا حق کبھی ادا نہیں کر سکتا چنانچہ حدیث پاک میں ہےایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرْض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ(6) مِیل تک لے گیاہوں،کیا میں ماں کے حقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قَدَر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(معجم صغیر،1/92،حدیث:257)

اس حدیث پاک کو بغور پڑھیں کتنی مشکل سے وہ صحابی رسول چلے لیکن پھر بھی اپنی والدہ کا کماحقہ حق ادا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہوتے وقت درد کے ایک جھٹکے کا حق بھی بمشکل ادا ہوا ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاد کے بدلے ماں باپ کی خدمت کا حکم دیا چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں تلے ہے۔ (نسائی جلد 2 ص 303 کتاب الجہاد)

مرنے کے بعد ماں کا حق یہ ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرپاتی تو کچھ خیرات کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو اس کو کچھ ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری، جلد اول،کتاب الجنائز حدیث نمبر1305)

حدیث پاک میں جنت ماں کے قدموں تلے بتائی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ والدہ کی خدمت کر کے انسان جنت میں جا سکتا ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔(شعب الایمان، رقم الحدیث: 370، ص: 132)

پیارے اسلامی بھائیو! قرآن پاک اور کثیر احادیث سے والدہ کی فرمانبرداری کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس کے بدلے میں ملنے والا انعام بھی بہت زیادہ ہے الله پاک ہمیں اپنی والدہ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نافرمانی سے بچائے رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ماں دنیا کی  بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اگر ہم ماں کی فرمانبرداری کریں گے ضرور ہم اللہ کے فضل و کرم سے جنت میں داخل ہوں گے لیکن افسوس آج کل ہمارے معاشرے میں ماں کی بالکل ہی عزت نہیں کی جاتی بہت سی احادیث مبارکہ ماں کی فرمانبرداری میں وارد ہوتی ہیں آپ بھی چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں اور جھوم اٹھیے:

(1)سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کی کہ لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار کون ہے تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیری ماں اس نے پھر عرض کی پھر کون پھر فرمایا تیری ماں اس شخص نے پھر عرض کی پھر کون آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیری ماں پھر اس شخص نے عرض کی کون فرمایا تیرا باپ۔( مسلم شریف باب الوالدین )

(2)ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو:حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں میری ماں جو کہ مشرکہ قریش کے عہد اور مدت میں جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا ہوا تھا اپنے باپ کے ساتھ مدینہ منورہ آئیں میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ (بخاری شریف کتاب الادب )

(3)ماں کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ماں کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔( مسلم شریف )

(4)ماں کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تیری ماں زندہ ہے تو اس نے عرض کی جی ہاں تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تم اس کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔( مسلم شریف)

(5)گرم پتھروں پر:ایک صحابی نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا چھ میل تک اپنی ماں کو اپنے گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا اب ان کے حق سے ادا ہو گیا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔( طبرانی شریف )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ان احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آئیے جانتے ہیں ایک ایسی ہستی کے بارے میں جو اپنی جوانی کو، اپنی خواہشوں کو،اپنے وقت کو،اپنی طاقت کو،اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ساری زندگی کو، سب کچھ اپنی اولاد پر صرف کردیتی ہے وہ کوئی اور نہیں وہ (ماں)ہے ماں کی محبت اولاد کےلئے بےلوث ہوتی ہے۔اگر والدہ جیسی نعمت کا ساری زندگی بھی شکر ادا کیا جائے تو نہیں ہو سکتا ایک ماں کا اللہ پاک کی بارگاہ میں کیا مقام ہے اور کیا حقوق ہے آئیے جانتے ہیں:

ماں کا حق کیا؟ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور رسول راحت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں وہ شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔

جہاد سے اہم والدہ کا حق: ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں تلے ہے ۔ (نسائی جلد 2 صفحہ نمبر 303 کتاب الجہاد)

ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ تین چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے ان میں سے دو یہ ہیں: ماں باپ کے چہرے کو اور قرآن مجید کو۔ (کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 476)

ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جو مسلمان اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف خوش ہوکر محبت کی نظر سے دیکھے گا اللہ تعالی اس کو مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔(کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 469)

والدہ کے حقوق میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:(1) احترام کرنا۔زبان سے اف تک نہ کہے(2) محبت کرنا۔ہاتھ پاؤں چومنا (3) اطاعت: ان کی فرماں برداری کرنا (4) خدمت: ان کے کام کرنا۔حکم بجا لانا (5)ان کو آرام پہنچنا (6)ان کی ضروریات کو پوری کرنا۔(7)قرض ادا کرنا(8)جب فوت ہوجائےتو دعائے مغفرت کرنا(9)ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ (10) گاہ گاہ ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

والدین کی مثال دو آنکھوں کی سی ہے، ایک دائیں ہے اور دوسری بائیں، اگر ایک آنکھ چلی جائے تو بینائی متأثر ہوتی ہے اور اگر دونوں آنکھیں چلی جائیں انسان اندھا ہوجاتا ہے، سواپنے والدین کی حفاظت اور خیال اپنی آنکھوں کی طرح کرو اور کہتے رہا کرو: رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24) ترجمہ کنزالایمان:اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:24)

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا ادب کرنے ان کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کے حقوق فرض کیے ہیں، جنہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے، حقوق العباد میں سب سے مقدم حقوق والدین کے ہیں اور پھر والدین کے حقوق میں زیادہ اہمیت ماں کے حقوق کو حاصل ہے

ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر ماں کی فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں، کہیں ماں اور باپ دونوں کی فرمانبرداری اور کہیں پر علیحدہ علیحدہ ان دونوں کی فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کے باپ کے حق میں۔(المسند، ج6، ص463، حدیث: 18812۔الحقوق لطرح العقوق، ص36)

اس حدیث میں بار بار وصیت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں باپ پر ماں کو ترجیح دے۔ مثلاً: ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو یا پھر دونوں سفر سے آئے ہیں تو پہلے ماں کے پاؤں دبائے اور پھر باپ کے۔

اسی طرح ایک اور حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ) روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے خدمت اقدس حضور پرنور میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اُس کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیرا باپ ۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث: 5981 ج4، ص93)(الحقوق لطرح العقوق، ص36)

اس حدیث مبارکہ میں پہلے والی حدیث کی طرح بار بار وصیت کی کہ ماں کو باپ پرخدمت میں ترجیح دی جائے لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ اگر والدین کا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو ماں کا ساتھ دیتے ہوئے معاذ اللہ باپ کو کسی طرح تکلیف پہنچانے کی کوشش کی نہ جائے یا اسے جواب دیا جائے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کی جائے، تو یہ سب باتیں حرام اور اللہ کی معصیت (نافرمانی) ہیں اور اللہ عزوجل کی معصیت (نافرمانی) میں نہ ماں کی اطاعت اور نہ باپ کی اطاعت، تو اسے ماں باپ میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور اقدس سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا، میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا۔ (مستدرک، کتاب البرّ و الصلۃ، باب بر امک ثم اباک ثم القرب فالقرب حدیث: 7326، ج5، ص208)(الحقوق لطرح العقوق، ص35)

ماں کی عظمت اور شان بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشّھاب، ج1، ص102، حدیث: 119)(سُمندری گُنبد، ص5)

یعنی ان سے بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے اور اس سے متعلقہ ایک حدیث ہے کہ تاجدار دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنّت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا ۔(دُرِّ مختار، ج9، ص606، دارالمعرفۃ بیروت) (سُمندری گُنبد، ص5)

میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً اُن کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے۔ یقینا ماں باپ کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے اور سخت بڑھاپے میں بعض اوقات بستر ہی پر بول و بزار (یعنی گندگی) کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے، مگر یاد رکھیے! ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے۔ بچپن میں ماں بھی تو بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے اس لیے ہمیں چاہیے ہم اُن سے بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے اُن سے محبت سے پیش آئیں اور اُن کی فرمانبرداری کریں۔

دل دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا

ورنہ اس میں ہے خسارہ آپ کا

(وسائل بخشش، 377)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کے دور کے اندرجو لوگ logic کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسلام کے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جبکہ تمام چیزوں کااسلام میں بیان کیا جا چکا ہے ایسی ہی ایک عظیم ہستی ہماری والدہ بھی ہے جو ہمیں پہلے دن سے لیکر اپنے آخری سانس تک ہم سے محبت کرتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہم ان کی قدر نہیں کرتے۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں بقیہ رشتوں کے متعلق فرمایا وہیں پر ماں کی شان و عظمت کو بھی بیان کیا ہےبلکہ دین اسلام نے والدین کے احترام کو اس حد تک ملحوظ رکھا ہے کہ کسی اور کے والدین کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں دی یعنی دوسروں کے والدین کی بھی عزت کی جائے اور انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی والدہ کی قدر نہیں کرتے ایک تعداد ایسی ہے ہم میں سے کہ وہ اپنی والدہ کو گالیاں دیتی نظر آتی ہے

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس پر قادر نہیں ہوں۔ اس کی بات سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا کیا تیرے والدین میں سےکوئی زندہ ہے؟ عرض گزار ہوا والدہ زندہ ہیں۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پس تو اپنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری کے معاملے میں اللہ عز وجل سے ڈر جب تو اس پر عمل کرے گا تو حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اور جہاد کرنے والا ہو گا۔جب تیری ماں تجھے بلائے تو اس کی فرمانبرداری کے بارے میں اللہ عز وجل سے ڈرنا یعنی اس کی نافرمانی نہ کرنا اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔(در منثور جلد چہارم صفحہ 172)

ایک اور حدیث پاک میں ہے حضرت انس رضی الله تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ (كنز العمال جلد 16 صفحہ نمبر 461)

اورحضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔ (بخاری، الصح كتاب الادب، باب من أحق الناس، 5، 2227، قم، 2 5626 مسلم، الصح كتاب البر والصلة)

یہ تو مسلمان والدہ کے متعلق ارشاد ہے جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو مشرک والدہ کے متعلق بھی حسن سلوک کا ارشاد فرمایا :

حضرت اسماء بنت ابوبكر رضى الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں مکہ سے آئی ہے اور وہ مشرکہ ہےاور وہ دین اسلام سے بھی بیزار ہے کیا میں اُس سے حسن سلوک کروں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہاں اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(مسلم، كتاب زكوة)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفيق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔