محمد اسد جاوید عطّاری (درجۂ
سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
ماں ایک رحم
دل اور شفیقہ خاتون ہے جو اپنی اولاد کی زندگی میں ایک درخت کی جڑ کی مانند ہے جو
اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرتی ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی
خواہشات کو قربان کردیتی ہے اپنی خوشیوں کو مٹی تلے دفن کردیتی ہے جو خود نہیں
کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اس پاکیزہ
رشتے کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ماں کے حقوق کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے ماں
پر ظلم کیا جا رہا ہے کچھ بد بخت تو اپنی ماں کو برا بھلا کہتے ہیں گالیاں دیتے
ہیں مارتے ہیں یہاں تک کہ اسے اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ تو
وہ رشتہ جس کے حقوق خود الله پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمائے اور الله پاک کے
پیارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں اس کی
تلقین فرمائی۔
چنانچہ الله
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا
تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ
لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ
کنزالایمان: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ
کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)
آیت مبارکہ
میں اللہ پاک نے شرک سے منع فرمانے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
ارشاد فرمایا اور ان کے آگے اف تک نا کہنے کا ارشاد فرمایااگر ذہن میں یہ بات آئے
کہ اف تک بھی نہیں کہنا آخر ایسا کیوں؟ تو فوراً اپنے اوپر اپنی ماں کے احسانات کو
یاد کیجئے ان تکالیف کو یاد کیجئے جو نو ماہ انہوں نے اپنے پیٹ میں آپ کو رکھ کر
برداشت کی پھر پیدائش کے وقت کی الگ تکالیف سخت سردی کی رات میں خود گیلے بستر پر
سو کر آپ کو خشک بستر پر سلایا آپ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی اپنی پسند
کو آپ کی پسند پر قربان کر دیا خود بھوکی رہ کر تمہیں پیٹ بھر کھلایا تو اس کا یہ
حق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوئے اف تک نا کہا جائے
۔
کثیر احادیث
میں بھی والدہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں :
ماں
کے ساتھ حسن سلوک :حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض
کیا: لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور
مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر
کون؟ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص
نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔(بخاری،
کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 2/93 الحدیث: 5971)
حضرت اسماء رضی
اللہ عنہافرماتی ہیں جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ
اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے
ساتھ سلوک کرو۔ (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک،2/92، الحدیث: 5978)
یعنی کافرہ
ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔
ماں
سے حسن سلوک کا انعام :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن
پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی
اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے
احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین،
2/222، الحدیث: 3312)
اور شعب
الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت
بھلائی کرتے تھے۔ (شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 2/182،
الحدیث: 7851)
انسان اپنی
والدہ کا حق کبھی ادا نہیں کر سکتا چنانچہ حدیث پاک میں ہےایک صحابی رضی اللہ عنہ نے
بارگاہِ نبوی میں عرْض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن
پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ(6) مِیل تک لے
گیاہوں،کیا میں ماں کے حقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قَدَر جھٹکے اُس نے
اُٹھائے ہیں شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(معجم
صغیر،1/92،حدیث:257)
اس حدیث پاک
کو بغور پڑھیں کتنی مشکل سے وہ صحابی رسول چلے لیکن پھر بھی اپنی والدہ کا کماحقہ
حق ادا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہوتے وقت درد کے ایک جھٹکے کا حق بھی بمشکل ادا ہوا ہے
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاد کے بدلے ماں باپ کی خدمت کا حکم
دیا چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے
عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں
تلے ہے۔ (نسائی جلد 2 ص 303 کتاب الجہاد)
مرنے کے بعد
ماں کا حق یہ ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے آنحضرت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میں سمجھتا ہوں
اگر وہ بات کرپاتی تو کچھ خیرات کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو اس
کو کچھ ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری، جلد اول،کتاب الجنائز حدیث
نمبر1305)
حدیث پاک میں
جنت ماں کے قدموں تلے بتائی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ والدہ کی خدمت کر کے انسان
جنت میں جا سکتا ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔(شعب الایمان، رقم الحدیث: 370، ص: 132)
پیارے اسلامی
بھائیو! قرآن پاک اور کثیر احادیث سے والدہ کی فرمانبرداری کی اہمیت واضح ہوتی ہے
اور اس کے بدلے میں ملنے والا انعام بھی بہت زیادہ ہے الله پاک ہمیں اپنی والدہ کے
حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نافرمانی سے بچائے رکھے۔ آمین ثم آمین یا
رب العالمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔