عباس علی عطاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
آئیے جانتے
ہیں ایک ایسی ہستی کے بارے میں جو اپنی جوانی کو، اپنی خواہشوں کو،اپنے وقت کو،اپنی
طاقت کو،اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ساری زندگی کو، سب کچھ اپنی اولاد پر صرف کردیتی
ہے وہ کوئی اور نہیں وہ (ماں)ہے ماں کی محبت اولاد کےلئے بےلوث ہوتی ہے۔اگر والدہ جیسی
نعمت کا ساری زندگی بھی شکر ادا کیا جائے تو نہیں ہو سکتا ایک ماں کا اللہ پاک کی
بارگاہ میں کیا مقام ہے اور کیا حقوق ہے آئیے جانتے ہیں:
ماں
کا حق کیا؟ حضرت
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور رسول راحت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب
سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں وہ شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور سید عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔
جہاد
سے اہم والدہ کا حق: ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت
لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے
والدین زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ
رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں تلے ہے ۔ (نسائی جلد 2 صفحہ نمبر 303 کتاب الجہاد)
ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالی عنہا سے مروی ہے کہ تین چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے ان میں سے دو یہ ہیں: ماں باپ کے چہرے کو اور قرآن مجید کو۔ (کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 476)
ایک حدیث پاک
میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جو مسلمان اپنے
ماں باپ کے چہرے کی طرف خوش ہوکر محبت کی نظر سے دیکھے گا اللہ تعالی اس کو مقبول
حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔(کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 469)
والدہ کے حقوق
میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:(1) احترام کرنا۔زبان سے اف تک نہ کہے(2) محبت
کرنا۔ہاتھ پاؤں چومنا (3) اطاعت: ان کی فرماں برداری کرنا (4) خدمت: ان کے کام
کرنا۔حکم بجا لانا (5)ان کو آرام پہنچنا (6)ان کی ضروریات کو پوری کرنا۔(7)قرض ادا
کرنا(8)جب فوت ہوجائےتو دعائے مغفرت کرنا(9)ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ (10) گاہ
گاہ ان کی قبر کی زیارت کرنا۔
والدین کی
مثال دو آنکھوں کی سی ہے، ایک دائیں ہے اور دوسری بائیں، اگر ایک آنکھ چلی جائے تو
بینائی متأثر ہوتی ہے اور اگر دونوں آنکھیں چلی جائیں انسان اندھا ہوجاتا ہے،
سواپنے والدین کی حفاظت اور خیال اپنی آنکھوں کی طرح کرو اور کہتے رہا کرو: رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24) ترجمہ
کنزالایمان:اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی
عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:24)
اللہ پاک ہمیں
اپنے والدین کا ادب کرنے ان کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔