آج کے دور کے اندرجو لوگ logic کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسلام کے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جبکہ تمام چیزوں کااسلام میں بیان کیا جا چکا ہے ایسی ہی ایک عظیم ہستی ہماری والدہ بھی ہے جو ہمیں پہلے دن سے لیکر اپنے آخری سانس تک ہم سے محبت کرتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہم ان کی قدر نہیں کرتے۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں بقیہ رشتوں کے متعلق فرمایا وہیں پر ماں کی شان و عظمت کو بھی بیان کیا ہےبلکہ دین اسلام نے والدین کے احترام کو اس حد تک ملحوظ رکھا ہے کہ کسی اور کے والدین کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں دی یعنی دوسروں کے والدین کی بھی عزت کی جائے اور انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی والدہ کی قدر نہیں کرتے ایک تعداد ایسی ہے ہم میں سے کہ وہ اپنی والدہ کو گالیاں دیتی نظر آتی ہے

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس پر قادر نہیں ہوں۔ اس کی بات سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا کیا تیرے والدین میں سےکوئی زندہ ہے؟ عرض گزار ہوا والدہ زندہ ہیں۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پس تو اپنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری کے معاملے میں اللہ عز وجل سے ڈر جب تو اس پر عمل کرے گا تو حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اور جہاد کرنے والا ہو گا۔جب تیری ماں تجھے بلائے تو اس کی فرمانبرداری کے بارے میں اللہ عز وجل سے ڈرنا یعنی اس کی نافرمانی نہ کرنا اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔(در منثور جلد چہارم صفحہ 172)

ایک اور حدیث پاک میں ہے حضرت انس رضی الله تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ (كنز العمال جلد 16 صفحہ نمبر 461)

اورحضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔ (بخاری، الصح كتاب الادب، باب من أحق الناس، 5، 2227، قم، 2 5626 مسلم، الصح كتاب البر والصلة)

یہ تو مسلمان والدہ کے متعلق ارشاد ہے جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو مشرک والدہ کے متعلق بھی حسن سلوک کا ارشاد فرمایا :

حضرت اسماء بنت ابوبكر رضى الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں مکہ سے آئی ہے اور وہ مشرکہ ہےاور وہ دین اسلام سے بھی بیزار ہے کیا میں اُس سے حسن سلوک کروں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہاں اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(مسلم، كتاب زكوة)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفيق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔