اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کے حقوق فرض کیے ہیں، جنہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے، حقوق العباد میں سب سے مقدم حقوق والدین کے ہیں اور پھر والدین کے حقوق میں زیادہ اہمیت ماں کے حقوق کو حاصل ہے

ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر ماں کی فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں، کہیں ماں اور باپ دونوں کی فرمانبرداری اور کہیں پر علیحدہ علیحدہ ان دونوں کی فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کے باپ کے حق میں۔(المسند، ج6، ص463، حدیث: 18812۔الحقوق لطرح العقوق، ص36)

اس حدیث میں بار بار وصیت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں باپ پر ماں کو ترجیح دے۔ مثلاً: ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو یا پھر دونوں سفر سے آئے ہیں تو پہلے ماں کے پاؤں دبائے اور پھر باپ کے۔

اسی طرح ایک اور حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ) روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے خدمت اقدس حضور پرنور میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اُس کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیرا باپ ۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث: 5981 ج4، ص93)(الحقوق لطرح العقوق، ص36)

اس حدیث مبارکہ میں پہلے والی حدیث کی طرح بار بار وصیت کی کہ ماں کو باپ پرخدمت میں ترجیح دی جائے لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ اگر والدین کا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو ماں کا ساتھ دیتے ہوئے معاذ اللہ باپ کو کسی طرح تکلیف پہنچانے کی کوشش کی نہ جائے یا اسے جواب دیا جائے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کی جائے، تو یہ سب باتیں حرام اور اللہ کی معصیت (نافرمانی) ہیں اور اللہ عزوجل کی معصیت (نافرمانی) میں نہ ماں کی اطاعت اور نہ باپ کی اطاعت، تو اسے ماں باپ میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور اقدس سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا، میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا۔ (مستدرک، کتاب البرّ و الصلۃ، باب بر امک ثم اباک ثم القرب فالقرب حدیث: 7326، ج5، ص208)(الحقوق لطرح العقوق، ص35)

ماں کی عظمت اور شان بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشّھاب، ج1، ص102، حدیث: 119)(سُمندری گُنبد، ص5)

یعنی ان سے بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے اور اس سے متعلقہ ایک حدیث ہے کہ تاجدار دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنّت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا ۔(دُرِّ مختار، ج9، ص606، دارالمعرفۃ بیروت) (سُمندری گُنبد، ص5)

میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً اُن کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے۔ یقینا ماں باپ کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے اور سخت بڑھاپے میں بعض اوقات بستر ہی پر بول و بزار (یعنی گندگی) کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے، مگر یاد رکھیے! ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے۔ بچپن میں ماں بھی تو بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے اس لیے ہمیں چاہیے ہم اُن سے بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے اُن سے محبت سے پیش آئیں اور اُن کی فرمانبرداری کریں۔

دل دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا

ورنہ اس میں ہے خسارہ آپ کا

(وسائل بخشش، 377)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔