ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہوتی ہے، جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے، جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے، جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے، لیکن آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، مارتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے خود کے گھر سے اس کو نکال دیتے ہیں۔جبکہ جس محبوب کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے انہوں نے ماں کی شان و عظمت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے آیئے پڑھتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، حدیث: 5971)

حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔ یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

پیارےاسلامی بھائیو! ان دونوں احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ والدہ کے ساتھ ہر حالت میں اچھا سلوک کیا جائے گا یہاں تک کہ اگر والدہ کافرہ یا مشرکہ ہے تب بھی اس کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کیا جائے گا نہ کہ اسے برا بھلا کہا جائے گا اور والدہ کے مسلمان ہونے کی صورت میں تو بالخصوص اس کی فرمانبرداری کی جائے گی۔

ماں کی فرمانبرداری کی وجوہات:

والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ کنزالعرفان:میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔(لقمان:14)

اس آیت میں الله رب العزت نے جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی۔

والدین کے حوالے سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین بھی حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتٰی الامکان سعی کی، اس طرح بڑھاپے میں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں، اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی ہے۔ جبکہ بڑھاپے ان کی خدمت نہ کرنے والوں وعید بھی سنائی ہے، جیسا کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:رغم انف ثم رغم انف ثم رغم انف من ادرك أبويه عند الكبر احدهما او كليهما فلم يدخل الجنه یعنی س کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی میں ہو جو اپنی ماں کو بڑھاپے میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو۔(رواہ مسلم)

جنت ماں کے قدموں تلے ہے، اگر ہم جنت چاہتے ہیں تو جس طرح ماں نے آپ کو بچپن میں پالا تھا اسی طرح آپ بھی ان کی خدمت کیجیے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔