اسلام میں ماں کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس بات کا اندازہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فرمان” جنت ماں کے قدموں تلے ہے “ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے بھی اُن کو اُف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ ماں کی عظمت کے متعلق چند فرامین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم درج ذیل ہیں:

(1) حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی لوگوں میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوں کا حقدار کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیری ماں پھر عرض کی کون ؟ ارشاد فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کی کون؟ ارشاد فرمایا: تیری ماں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، ص1378 احدیث2527)

(2) باپ کے حکم سے فضلیت والا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی حالت میں ماں باپ تمہیں بلائیں تو ماں کے بلانے پر چلے جاؤ اور باپ کے بلانے پر نہ جاؤ۔ (کنز العمال، ج16ص470)

(3) صلہ رحمی کرنا: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں آئی اور اس وقت وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی میری ماں میرے پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ (بخاری۔ کتاب الهبۃ وفضلها جلد 2 صفحہ 182 حدیث۔2625)

(4)جہاد فی سبیل اللہ سے افضل‌‌: حضرت طلحہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہوں حضور نے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے میں نے عرض کی جی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اس کے پاؤں سے چمٹے رہو وہی جنت ہے۔ (مجمع الزوائد ج 8 ص 138)

(5)جہنم سے حجاب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کےدرمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کیلے جہنم سے حجاب ہے ۔ (کنز العمال جلد 16 صفحہ 462)

آج کل ہمارے معاشر میں ماں کی نافرمانی عام ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ماں کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔