محمد بن سجاد (درجہ
اولیٰ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
زندگی اللہ
تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بہت ہی خوبصورت اور انمول نعمت ہے، اس کی اصل خوبصورتی اور
رونق والدین کے دم سے ہے۔گلاب جیسی خوشبو،سچائی کا پیکر،لازوال محبت و شفقت اور
قربانی جیسے الفاظ یکجا ہو جائیں تو دو الفاظ بن جاتے ہیں ماں اور باپ۔
اسلام نے حقوق
العباد سے لے کر حقوق اللہ تک سب کے حقوق اور فرمانبرداری پر زور دیا ہے۔اور ان
میں سے بھی خاص طور پر والدین اور ان میں سے والدہ پر خاص توجہ دی ہے۔ والدہ
کی فرمانبرداری پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سے ارشادات ملتے
ہیں۔جیسے اللہ کے محبوب، دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ماں
کی نافرمانی حرام ہے اللہ نے تم پر ماؤں
کی نافرمانی اور بد سلوکی کو حرام کر دیا۔ (صحیح بخاری: حدیث: 2408)
ایک اور جگہ
فرمایا: حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار
تمہاری ماں ہے ۔ (صحیح بخاری: حدیث:5971)
ماں وہ ہستی
ہے جس کے بارے میں قران سے لے کر حدیث تک بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔قران و حدیث کے
ساتھ ساتھ اولیا ء کے اقول اور ان کی زندگی کے بہت سے واقعات بھی ملتے ہیں۔ایک
واقعہ جو ایک شخص کا ہے جس کا نام حضرت
اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔آپ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
مبارک دور پانے کے باوجود شرف صحابیت حاصل نہ کر سکے۔اور آپ کے شرف صحابیت حاصل
نہ کرنے کی وجہ بیمار والدہ کی خدمت تھی ۔
صحابہ
بھی حضرت اویس قرنی سے دعا کرواتے: حضرتِ سَیِّدُنا اُسَیْر بن عَمرو رضی
اللہ عنہ جنہیں ابن جابر بھی کہا جاتا ہے، بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرتِ
سَیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمنی مددگار مجاہدین کے قافلے آتے
تو آپ ان سے دریافت فرماتے: ’’ کیا تم میں اُویس بن عامر ہیں؟ ‘‘ یہاں تک کہ (ایک
قافلے میں) جب سیدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ اُن کے پاس پہنچے توسیدنا فاروقِ
اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا آپ اُویس بن عامر ہو؟ ‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی
ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ قبیلہ مُراد اور قَرَن سے ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘
فرمایا: ’’کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو ایک درہم کی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک
ہوگئی؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کی والدہ ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘
سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے
ہوئے سنا: تمہارے پاس یمنی مددگار مجاہدین کے قافلوں کے ہمراہ اُویس بن عامر آئیں
گے، وہ قبیلہ مراد اور (اس کی شاخ) قرن سے ہوں گے، انہیں برص کی بیماری تھی پھر
ایک درہم کے برابر جگہ کے علاوہ ٹھیک ہوچکی ہوگی، اُن کی والدہ بھی ہوں گی اور وہ
والدہ ساتھ نیکی کرنے والے ہوں گے، اگر وہ کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھالیں
تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری فرمادے گا، اگر تم سے ہوسکے تو ان سے اپنے لیے
مغفرت کی دعا کروانا۔ لہٰذا آپ میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے۔ چنانچہ حضرت سیدنا
اُویس قرنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے دعا مانگی۔ ‘‘
(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی رضی اللہ عنہ، ص1375، حدیث
2542۔)
حدیث مذکورہ
سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ مقام
عطا فرمایا کہ آپ سے صحابہ بھی آ کر آپ سے دعا کرواتے تھے۔اور یہ مقام آپ کو
اپنی والدہ کی خدمت اور فرمانبرداری سے حاصل ہوا۔
والدہ کے حقوق
کے متعلق تین فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں:
ماں
کے قدموں میں جنت: ماں کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت اس
کے قدم کے پاس ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث معاویۃ بن جاھمۃ، 5/290، حدیث: 15538۔)
والدہ
کی خدمت کا صلہ: ماں
کی خدمت میں اللہ کی اطاعت کرو جب تم ایسا کرو گے تو تم حاجی،معتمر اور مجاہد کا
مرتبہ پالو گے۔ (معجم اوسط، 2/171، حدیث: 2915)
مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔(مستدرک
حاکم، کتاب البروالصلۃ، باب بِرّاُمّک۔۔۔ الخ، 5/208، حدیث: 7326)مذکورہ احادیث
میں نبی رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ماں کی
فرمانبرداری اور خدمت کرنے والے کو اللہ تعالی حاجی،معتمر(یعنی عمرہ کرنے والا)اور
مجاہد کا مرتبہ عطا فرماتا ہے۔
اسی طرح ہمیں
والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ایک اور حدیث نبوی ہے:
حسن
سلوک کا مستحق کون؟: چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے
ہیں: ایک صحابی ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولُ اللہ ! میرے
اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ پوچھا اس کے بعد
کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
تمہاری ماں ہے ۔ انھوں نے پوچھا: اس کے بعد کون ہے ؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
پھر تمہارا باپ ہے ۔(صحيح البخاري، رقم الحديث 5971، وأيضاً صحيح مسلم، رقم الحديث
1 ۔ 2548)
بیان کی گئی
تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ والدہ کے فرمانبرداری دنیا کے ان انمول ترین
کاموں میں سے ایک کام ہے کہ جو کام رضائے الہی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔اس طرح کی کئی اور حدیث اور آیات قرآنی ملتی ہیں جو کہ والدہ کی فرمانبرداری
اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر توجہ دلاتی ہیں۔
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں والدہ کی
فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔