فرمانِ امام زین العابدین: غور و فکر ایک ایسا آئینہ ہے جو مؤمن کو اس کی اچھائیاں اور برائیاں دکھاتا ہے۔ (تاریخ ابن عساکر، 41/408) لہٰذا آئیں ہم بھی اپنے اخلاق میں غور و فکر کرتے ہیں کہ کہیں ہم بھی اس گناہ میں شامل تو نہیں! بداخلاق لوگوں سے انسان اتنا دور ہوجاتے ہیں کہ اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، چاہے وہ شخص کتنا ہی کام کرنے والا اور ہاتھ بٹانے والا کیوں نہ ہو، ایک بداخلاقی کی وجہ سے لوگ اس سے دور ہوجاتے ہیں پھر وہ انسان اکیلا رہ جاتا ہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سب سے بڑی غربت اپنے پیاروں کو کھو دینا اور دور ہوجانا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/158، رقم: 3540)

بداخلاقی کرنے والے کو خود بھی اپنی بد اخلاقی اور برے رویے کا خیال بہت دیر بعد ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں بداخلاقی کے متعلق ضرور پڑھ لینا چاہیے۔

تعریف: لوگوں سے بری اور نازیبا عادات کے ساتھ ملنا اور ہر وقت غصے میں رہنا اور صلہ رحمی اور عاجزی نہ کرنا بداخلاقی کہلاتا ہے۔

حکم: بداخلاقی جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے اور یہ گناہ ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ عمل کا برباد ہونا: بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کشف الخفا، ص 405، حدیث: 1496)

2۔ بداخلاق تنہا رہ جائے گا: جس کا اخلاق برا ہوگا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہوجائے گا اور لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہوجائے گی۔ (کتاب البر و الصلۃ، 7/116، حدیث: 2602)

3۔ بداخلاق کی توبہ نہیں: بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، 2/375، حدیث: 6064)

4۔ جنت میں نہ جائے گا: بداخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (ترمذی، ص 1847، حدیث: 1946)

اللہ اللہ! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بداخلاقی سے دور رکھے کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں بداخلاقی کی توبہ قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گمان رکھتا ہے جبکہ جو خود برا ہو اسے دوسرے بھی برے ہی دکھائی دیتے ہیں۔آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ناپسندیدہ کاموں اور عادات سے ہمیشہ کے لیے دور رکھے اور ہمیشہ دعوت اسلامی کا وفادار رکھے۔ آمین