حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ رمضان
احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
والدین کے متعلق آیتِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:اللہ
پاک فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ
اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ
لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15 ،بنی اسرائیل :23)ترجمہ: اور
تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان
میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس
آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات
میں اللہ پاک نے تقریباً 25کاموں کا حکم دیا ہے۔آیت کے ابتدائی حصے کا معنی یہ
ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اللہ پاک کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ اور
تمہیں جو کام کرنے کااللہ پاک نے حکم دیا
انہیں کرو اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچو۔اس میں سیّد المرسَلین ﷺ کی رسالت کا اقرار، ان سے محبت اور ان کی
تعظیم کرنا بھی داخل ہیں کیونکہ اس کا بھی
اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:قُلْ
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ3،اٰل
عمرٰن:31)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے حبیب!فرمادو کہ
اے لوگو!اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا۔(صاوی، 3 / 1125)
اللہ پاک
نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ،اس
میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی
سبب اللہ پاک کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللہ پاک نے پہلے انسانی
وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم
دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک
کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی
ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر،7/321،323)(تفسیر صراط الجنان،5/439)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے
ہیں:(جس کا خلاصہ ہے کہ )ایک صحابی رضی اللہ عنہ
نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی:
یا رسولَ اللہ ﷺ!میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک
کرتا تھا ، وہ انتقال کرگئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟ارشاد
فرمایا:انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تواپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی
نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے
لئے روزے رکھے۔ یعنی جب اپنے ثواب ملنے کے لئے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو
کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ انہیں ثواب
پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ
ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ،24/395ملخصاً)
اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء
متأخرین کے تین طریقے ہیں:اول یہ کہ حضور ﷺ کے والدین رضی اللہ عنہما اور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے دین پر تھے،لہٰذا مؤمن ہوئے ۔ دوم یہ کہ تمام حضرات حضور ﷺ کے اعلانِ
نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانۂ فترت کہلاتا ہے اور ان
لوگوں تک حضور ﷺ کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں،لہٰذا ہرگز ہرگز ان حضرات کو کا
فرنہیں کہا جا سکتا بلکہ ان لوگوں کو مومن ہی کہا جائے گا ۔سوم یہ کہ اللہ پاک نے
ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور
ﷺ کی تصدیق کی اور حضور ﷺکے والدین رضی اللہ عنہما کو زندہ کیا گیا ۔
حضرت شیخ اسمعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التذکرہ میں تحریر فرمایا کہ اُمُّ
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے
فرمایا :حضور ﷺجب حجۃ الوداع میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور حجون کی گھاٹی پر
گزرے تو رنج وغم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور ﷺ کوروتا دیکھ کر میں بھی رونے
لگی۔ پھرحضور ﷺ اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف
لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ
پر میرے ماں باپ قربان ہوں!کیا بات ہے کہ آپ رنج وغم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے
اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے؟ تو حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ پاک سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرمادے تو اللہ پاک
نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں ۔(تفسیر روح البيان،1/217)
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ اپنے ماں باپ رضی
اللہ عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک
خشک درخت زمین میں بو دیااور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی
علامت ہوگی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر
حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر
اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے ۔(سیرتِ مصطفی ٰ، ص63)
اللہ پاک کی طرف سے حفاظتِ قبر:کچھ
کفار کا گزر مقام ابواء سے ہوا تو انہوں نے چاہا کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا جسدِ مبارک قبر سے
نکال کر نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچائیں، لیکن اللہ کریم نے اپنے نبی ﷺ کی والدہ کے
اکرام کی خاطر انہیں اس نا پاک ارادے سے باز رکھا۔(الکامل فی التاريخ،1/ 361)
والدہ سے محبت کا عالم:ایک
بار نبی کریم ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رونے لگے، حاضرین نے رونے کا سبب
پوچھا تو فرمایا :مجھے اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آگئی
تو میں رو پڑا۔(سيرة حلبیہ ،1/ 154)
صدقہ تم پہ ہوں دل و جان آمنہ تم نے
بخشا ہم کو ایمان آمنہ
جو مِلا جس کو مِلا تم سے مِلا دین و
ایمان علم و عرفان آمنہ
کُل جہاں کی
مائیں ہوں تم پر فدا تم محمد کی بنیں ماں آمنہ
(دیوان سالک ، ص 32)