ارشاد باری ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-(پ21،لقمن:14)ترجمہ:یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین کا مقام انتہائی بلند ہے ۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ساتھ بندے کے والدین کا ذکر فرمایا اور ایک ساتھ دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔اب اگر کوئی بد قسمت اپنے والدین کی خدمت نہ کرے اور انہیں تکلیفیں دے تو یہ اس کی بدنصیبی اور محرومی ہے۔حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:جس نے پنجگانہ نمازیں ادا کیں وہ اللہ پاک کا شکر بجا لایا اور جس نے پنجگانہ نمازوں کے بعد والدین کے لئے دعائیں کیں تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔(تفسیر صراط الجنان،7/487) (تفسیربغوی، 3 /423)

قرآنِ کریم میں اور بھی بہت سے مقامات پر والدین کی عزت و عظمت کو بیان کیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا(پ 5 ،النسآء:36)ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا(پ 1،البقرۃ:83)اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاۚ-(پ8، الانعام: 151)ترجمہ:تم فرماؤآؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرو)۔

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15 ،بنی اسرائیل :23)ترجمہ: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ26،الاحقاف: 15) ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ۔

آپ ﷺ کو اپنی والدہ سے اور آپ کی والدہ کو آپ سے بے حد محبت تھی ۔جبکہ آپ کی عمر مبارک جب برس ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ شریف میں آپ کے والد کے ننھیال سے ملانے لے گئیں ۔ اس سفر میں بی بی ام ایمن بھی ساتھ تھیں ۔ بی بی ام ایمن آپ کے والد کی کنیز تھیں ۔ واپسی پر ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہیں تدفین ہوئیں۔باپ کا سایہ پہلےاُٹھ چکا تھا ،اب ماں کی آغوشِ محبت و شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔حضرت ام ایمن نے آپ کے آنسو پونچھے،آپ کو تسلی دی اور واپس مکہ شریف لا کر آپ کے دادا حضرت ابو عبد المطلب کے سپرد کر دیا ۔پھر آپ کے دادا نے آپ کی پرورش کی۔آپ اپنی رضائی والدہ سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔آپ کے والد حضرت عبد الله بن عبد المطلب کا وصال آپ کی ولادت سے قبل 25 سال کی عمر میں ہوا تھا ۔

آپ ﷺ کی کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کا ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا گیا:کون سا عمل اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا ۔عرض کیا گیا:پھر کون سا؟فرمایا:والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل الله۔(مسلم،ص812،حدیث:25 (1510)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:والدین کی نافرمانی نہ کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ اپنے اہل و مال کوچھوڑ دے۔(مسند امام احمد،8/249،حدیث:22136)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ ان کے نفل قبول فرماتا ہے نہ فرائض:(1)ماں باپ کو ستانے والا (2)خیرات کر کے احسان جتلانے والا اور(3) تقدیر کو جھٹلانے والا۔(السنۃ للامام ابن ابی عاصم، ص73،حدیث:332)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا:والدین کو ستانے والا لعنتی ہے۔(معجم اوسط،6/199،حدیث:8497)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کا ارشاد ہے: سب گنا ہوں کی سزا اگر اللہ چاہے گا تو قیامت کے دن کے لئے باقی رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔(مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی بارگاہ کی میں حاضر ہو کر اپنے والدین کی شکایت کی کہ میرا باپ مجھ سے میرا مال لینا چاہتا ہے تو آپ نے فرمایا : تو اور تیرا سارا مال تیرے باپ ہی کا ہے۔(ا بن ماجہ ،3/81، حدیث:2292)

حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین شخص جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے:والدین کا نافرمان،دیوث اور مردانہ وضع بنانے والی عورت۔(مستدرک،1 /252،حدیث: 2654)