حضور ﷺ کی اپنے والدین سے محبت از بنتِ
شاہد،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
سرکارِ مدینہﷺ کا فرمانِ رحمت ہے :جب اولاد اپنے
ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر نظرکے بدلے (مقبول حج ) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:اگر چہ دن میں سو مرتبہ کی
نظر کرے ؟تو رسولِ پاکﷺ نے ارشاد فرمایا:ہاں۔اللہ پاک
سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پاک ہے۔(شعب الایمان،6/186،حدیث:7856)
یقیناً اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے،وہ جس قدر چاہے
دے سکتا ہے،ہرگز عاجز نہیں،لہٰذا اگر کوئی اپنے ماں باپ کی طرف روزانہ 100تو کیا ایک ہزار بار بھی رحمت کی نظر کرے تو
وہ اُسے ایک ہزار مقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا۔(نیکی کی دعوت،ص434)
حضور ﷺ اپنے والدین سے بہت محبت کرتے تھے اور آپ نے فرمایا:ماں
کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔(نسائی،ص504، حديث:3101) یعنی ان کے ساتھ بھلائی کرنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے،جو ان
کے ساتھ بھلائی کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔(قسط67:دوست کیسے بنایا جائے؟ص23)در
مختارمیں ہے:جس نے اپنے والدہ کا پاؤں
چوما تو یہ ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ یعنی
دروازے کو بوسہ دیا۔(در مختار،9/606)
ماں باپ کے سامنے آواز بلند نہیں کرنی چاہیے،نظریں بھی نیچی رکھنی چاہئیں
اور جب بھی والدین بلائیں تو لبیک کہتے
ہوئے حاضر ہوں۔ان کو دور سے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہیے۔ان سے آنکھیں
ملا کر بات نہیں کرنی چاہیے۔ان کے ساتھ تمیز
سے اور آپ جناب سے بات کرنی چاہیے۔ایک مرتبہ حضرت عون رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ
کو بلایا تو جواب دیتے وقت آپ کی آواز کچھ بلند ہوئی تو آپ نے اس وجہ سے دو غلام
آزادکیے ۔(امیرِ اہلِ سنت سے والدین کے
بارے میں سوال جواب ،ص2)
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے:ایک مرتبہ ایک شخص نے عرض کی:یا
رسول اللہ ﷺ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟فرمایا:وہ دونوں تیری جنت اور دورخ ہیں۔(ابن
ماجہ،4/186،حدیث:3662)
حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جو ماں باپ یا ان سے ایک کی قبر پر ہر جمعہ زیارت کے لئے حاضر ہو تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور
وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے
والا لکھا جائے گا۔(معجم اوسط،4/321، حدیث:6114)
والدین کی اہمیت کو کون نہیں جانتا !اسلام نے ہمیں ماں باپ
کو خوش رکھنے اور ان کی ناراضی سے باز رہنے کا حکم دیا ہے، یقیناً اس میں ہمارے لئے
دنیا اور آخرت کی بے شمار بھلائیاں ہیں۔
حضرت محمد عربی ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد الله ہے۔(مسلم، ص
172 ، حدیث : 912)
کنیت :حضرت عبدالله کی کنیت ابو محمّد ،ابو احمد اور ابو قثم ہے۔قثم حضورﷺ کا ہی ایک نام ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو خیر و
بھلائی کی جامع ہو۔(سیرت حلبیہ 1 / 48 )
حضور ﷺ کا حسب و نسب :اس تناظر میں اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جن ہستیوں کو حضورﷺ کے والدین بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہ حسب و
نسب کے اعتبار سے کتنی عظیم ہوں گی تو اس کے لئے وہ فرمانِ مصطفےٰ کافی ہے کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:میں عرب
کے دو سب سے افضل قبیلوں بنی ہاشم و بنی زہرہ
سے پیدا ہوا۔( تاریخ ابن عساکر،3/ 401)
حضور ﷺ کا تعلق ماں باپ کی طرف سے جن دو قبیلوں
سے تھا وہ اس وقت سب سے افضل تھے۔ باقی
رہے آپ کے والدین کریمین تو وہ کسی قدر عظیم ہستیاں تھیں اُن کے ناموں سے ظاہر ہے،
جیسا کہ حضور ﷺ کے والد کا نام عبداللہ تھاجس کا معنی بنتا ہے:الله پاک کا بندہ۔عبد یعنی عبادت اور بندگی کی طرف معنی
جاتا ہے جبکہ والدہ محترمہ کا اسم ذی شان آمنہ جس کے معنی سے امن و سکون اور پیارو
محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔گویا ان دونوں ناموں کے معانی کو جمع کرو تو الله پاک کی
عبادت اور امن و سکون نتیجہ نکلتا ہے۔ پھر ان کے وجود گرامی قدر سے جس مولود مسعود
محمد مصطفے ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی وہ
پوری کائنات کے لئے خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت اور امن و سکون کا پیغام لے کر
آئے یعنی سراپا رحمۃ للعالمین بن کر جلوہ گر ہوئے ۔(خاندان مصطفے، ص 189)
سیدہ کی زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے کلمات نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں:سیدہ آمنہ
رضی اللہ عنہا نے مزید ارشاد فرمایا :کل
حی میت وکل جدید بال وکل کبیر یفنی و انا میتۃ و ذکری باق وقد ترکت خیرا وولدت
طھراًیعنی ہر زندے کو مرنا ہے اورہرنئے کو پرانا
ہونا ، اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے۔میں مرتی ہوں اورمیرا ذکر
ہمیشہ خیر سے رہے گا،میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے
پیدا ہوا۔(الخصائص الکبری،1/ 135)
یہی وہ آخری کلمات تھے جو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبان
مبارک سے ادا ہوئے اور اس کے بعد آپ
اس جہان سے کوچ
فرما گئیں ۔(فتاوی رضویہ،30/303)اے عورتو!جن کی مائیں زندہ ہیں اُن کی خدمت کرو اور
ان کا حکم مانو ! اس رشتے کی قدران سے پوچھو جن کی ماں نہیں
!
حضور خاتم النبینﷺ کا اپنی والدہ کے ساتھ قیام اور مدینہ کو یاد
کرنا:مہینا پھر قیام کے دوران جو واقعات پیش آئے حضور بعد ہجرت
بسا اوقات ان کی یادوں کو تازہ فرمایا کرتے تھے۔مثلاً جب اس مکان کو دیکھتے جہاں
اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ قیام کیا تھا تو فرماتے:یہی وہ مکان ہے جس میں میری
والدہ نے قیام کیا تھا میرے والد ماجد کو بھی دفنا یا گیا تھا اور فرماتے:میں
نے بنو عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنے میں
مہارت حاصل کی تھی۔(طبقات ابن سعد ، 1 / 93)
ماں دل کرتا ہےتیرا
ہاتھ چوموں تیرے گلے
لگ کر اپنی ساری تھکن اتار لوں