حضرت  عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نور والے آقا ﷺ کے والد محترم ہیں۔آپ کا نام مبارک عبد اللہ، کنیت ابو محمد،ابو احمد اور ابو قثم( یعنی خیر و برکت سمیٹنے والا)ہےاور والدہ محترمہ کا نام مبارک آمنہ رضی اللہ عنہا ہے۔حضرت عبد اللہ اپنے والد ِمحترم حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ لاڈلے اور پیارے تھے۔قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی درخواست کی مگر حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب ونسب کی شرافت اور اعلیٰ درجے کی پاک دامن بھی ہو۔(سیرت مصطفیٰ،ص58) آیاتِ مبارکہ:

وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (بنی اسرائیل 24)ترجمہ:اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا ۔

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا(پ 5 ،النسآء:36)ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔

وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ21،لقمن:15)ترجمہ: اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ26،الاحقاف: 15) ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ۔

یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-(پ2،البقرۃ:215)ترجمہ: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے۔

حدیث شریف:والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(مسلم، ص60،حدیث:90)

ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا دیا ہوا ہر جائز کام فوراً کرنا چاہیے۔ماں باپ اگر شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اطاعت نہ کی جائے۔اگر کسی کے والد نے اپنی اولاد کے ساتھ برا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کویہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے والد کےساتھ بد سلوکی کرے۔یاد رکھئے!حدیثِ پاک میں ہے:سب گناہوں کی سزا اللہ پاک چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔(مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

اللہ پاک کی اطاعت والدکی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنےمیں ہے۔( معجم اوسط، 1 /641،حدیث:2255)

حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں :حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی اس بیماری میں رسول پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا سر مبارک دباتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حضور ﷺ کے آنسو آ پ کی امی جان کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی کیونکہ میں تم جیسا بیٹا چھوڑ رہی ہوں جس کے سبب مشرق و مغرب میں میرا چرچا رہے گا۔(مراۃ المناجیح،2/523)

ہر ایک کو ماں باپ پیارے ہوتے ہیں،پھر ہمارے آقا ﷺ کو کیوں پیارے نہ ہوں گے!اپنے والدین کریم کو اپنی پیاری امت کے ساتھ شمولیت کی خاطر عطائے رب قادر سے کیسا عظیم الشان معجزہ دکھایا پڑھئے اور جھو مئے۔چنانچہ

فوت شدہ والدین زندہ ہوگئے: امام ابو القاسم عبد الرحمن سُہیلی الروض الانف میں نقل کرتے ہیں کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سرکارﷺ نے دعا مانگی:یا اللہ! میرے ماں باپ کو زندہ کردے تو اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی دعا قبول فرما تے ہوئے دونوں حضرات یعنی والدین کو زندہ کردیا اور وہ دونوں اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ پر ایمان لائے اور پھر اپنے اپنے مزارات مبارکہ میں تشریف لے گئے ۔ (الروض الانف،1/ 299)