اللہ تعالی نے لوگوں کی اصلاح کے لیے انبیا کو مبعوث کیا۔ ان نفوس قدسیہ کی بعثت کی کڑی میں سے ایک حضرت صالح علیہ السلام ہیں۔ آپ اللہ تعالی کے جلیل القدر نبی ہیں۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد عظیم قوم کو کفر کی اندھیری کوٹھڑیوں سے نکال کر نور توحید سے منور کرنا ہوتا ہے نیز انکے اعمال سیئات کی نہ صرف نشاندہی کرنی ہوتی بلکہ برے اعمال کے انجام سے ڈرانا بھی ہوتا ہے۔ تاکہ مخلوق خدا امن و امان کے ساتھ زیست کی سڑھیاں عبور کرے۔ اسی طرح اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے خالقِ کائنات نے حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ پھر آپ نے قوم کی اصلاح کے لیے ہر طرح کی کوشش کی۔

طلب بخشش کا حکم دینا:- قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان: صا لح نے فرمایا: اے میری قوم! بھلائی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ ہوسکتا ہے تم پر رحم کیا جائے۔ (پارہ 19،سورۃالنمل ،آیت نمبر46)

بد شگونی اور آزمائش میں فرق:- قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان: انہوں نے کہا:ہم نے تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون لیا۔ صالح نے فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو کہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔(پارہ 19،سورۃالنمل ،آیت نمبر 47)

رجوع الی اللہ کی ترغیب دینا:- وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا۔(پارہ 12، سورۃ ھود آیت نمبر:61)

گزشتہ قوموں کے اعمال سے سبق سکھانا:-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔(پارہ 8،سورۃالاعراف،آیت نمبر،74) ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور اس نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا ، تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے تھے تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔(پارہ 8،سورۃالاعراف،آیت نمبر،74)

باری مقرر کرنا:- قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۔ ترجمۂ کنز العرفان: صالح نے فرمایا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک معیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے۔(پارہ 19،سورۃ الشعراء آیت نمبر155)

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کی خرابیوں کی نشاندہی بھی کی اور ان کی اصلاح بھی فرمائی۔ کبھی ان کو رب کی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور کبھی خدا کے عذاب سے ڈرایا ۔ جس طرح ممکن ہو سکا آپ نے اصلاح فرمانے کی کوشش کی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے خصائص میں سے یہ ہے ان کے پاس ایک اونٹنی تھی ۔اس کو نحر کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ یہ الله تعالٰی کی نشانی ہے۔ اور اس کا احترام کرنے کا حکم دیا۔ مگر وہ رجعت پسند قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اس کو نحر کر کے عذاب خداوندی کی مستحق ٹھہری۔ ہمیں بھی گزشتہ امتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے اس سے بچنا چاہیے تاکہ ہم کامیابی سے سرفراز ہو سکیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں اپنی اور اپنے رسول کی پیروی کرنے اور رب کی تمام برگزیدہ ہستیوں اورمقدس اشیاء کا اکرام کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین