مبین فاروق عطاری (درجہ سادسہ
مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُسے عقل و شعور سے نوازا، اسلام دینِ فطرت
ہے، جو نہ صرف انسانوں کے، بلکہ جانوروں کے بھی حقوق واضح کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں
ہمیں بار بار جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین ملتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر تو
جانوروں پر ظلم کرنے والے کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ جانور ہمارے فائدے کے لیے
ہیں، چنانچہ ارشاد باری ہوتا ہے :
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ-لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا
تَاْكُلُوْنَ۪(۵) ترجمہ کنزالایمان: اور چوپائے پیدا کیے ان میں
تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو ۔ (سورۃ النحل، آیت: 5)
آیت کا خلاصہ
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ، گائے اور بکریاں وغیرہ جانور پیدا کئے ، ان کی
کھالوں اور اُون سے تمہارے لیے گرم لباس تیار ہوتے ہیں اوراس کے علاوہ بھی ان
جانوروں میں بہت سے فائدے ہیں جیسے تم ان کی نسل سے دولت بڑھاتے ہو، اُن کے دودھ پیتے
ہو، اُن پر سواری کرتے ہو اور تم ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ:
5، 3 / 113)
اس آیت سے
ظاہر ہوتا ہے کہ جانور انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، لیکن ان کے فائدے اٹھانے
کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ اللہ کی نعمت ہیں تو ان کے ساتھ
برتاؤ بھی اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جانوروں کے حقوق کے متعلق چند احادیث
پڑھیے:
(1)
جانوروں کو بھوکا یا پیاسا رکھنا سخت گناہ ہے: اگر کسی نے جانور کو بھوکا پیاسا رکھا یا ایسی جگہ باندھ
دیا کہ وہاں سے وہ کھا پی نہ سکے اور وہ مر گیا تو سخت گناہگار ہے، اور اس پر وعید
آئی ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 886) جیسے کہ ایک حدیثِ مبارکہ کا
مفہوم ہے :ایک عورت کو اس لیے جہنم میں ڈالا گیا کہ اُس نے ایک بلی کو قید کر کے
بھوکا مار دیا۔ (بخاری ، کتاب المساقاۃ ، باب فضل سقی الماء ، صفحہ : 610 ، حدیث :
2364مفہوماً)
(2)جانوروں
پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے:جانور
پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا یا اُسے بغیر ضرورت کے دیر تک کھڑا رکھنا ظلم
ہے اور ایسی حرکتوں پر سخت عذاب کی وعید ہے۔(بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ
887)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ سے ڈرو ان بے زبان جانوروں کے بارے میں۔ (ابوداؤد،
کتاب الجہاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم، 3 / 32، الحدیث:
2548)
(3)
ذبح کرتے وقت نرمی اور جلدی کرنا لازم ہے: ذبح سے پہلے چھری کو اچھی طرح تیز کر لینا چاہیے، اور جانور کے سامنے دوسری
چھری نہ تیز کریں، نہ اسے خوف میں مبتلا کریں۔
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چھری تیز کرو اور جانور کو آرام دو۔ (مسلم،ص
832،حدیث: 5055)
پیارے اسلامی
بھائیو! ہمیں تمام جانداروں خصوصاً بے زبان جانوروں کے ساتھ شفقت، رحم دلی اور عدل
و انصاف کا برتاؤ کرنا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے حقوق پہچاننے اور ادا کرنے
والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
کلیم اللہ چشتی عطاری ( دورہ حدیث
مرکزی جامعہ المدینہ فیضان مدینہ جوہرٹاؤن لاہور ،پاکستان)
اسلام ایک
جامع مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہےکیونکہ یہ تاقیامت رہنے والا ہمہ گیر
و بے نظیر مذہب ہے ، جس نے پیامِ انسانیت کا درس صرف انسان ہی تک محدود نہیں رکھا
بلکہ تمام مخلوقات کے حق میں پیش کیا ہےیہاں تک کہ بے زبان جانوروں کے حقوق کو بھی
تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہےکیونکہ جانور بھی اس کائنات کا ایک اہم جز ہیں ان کی حق
تلفی کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف
ہے۔شریعت مطہرہ نے ان پر احسان اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت ورحمت کواجروثواب کے
اعلٰی درجات اورمغفرت کے اسباب میں شمار کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ برا
سلوک، بلاوجہ ان کو تکلیف وعذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت گردانا ہے۔
آئیے جانوروں کے چندحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں
تاکہ ہم دین و دنیا کی بھلائیاں سمیٹ سکیں۔
(1)رحم
کرنا: جانوروں کو مارنے پیٹنے سے
بچنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ہماری طرح جاندار ہیں ان پر ہمیشہ رحم کرنا چاہیے اس کا
بہت زیادہ اجر ہے یہاں تک کہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ایک آدمی نے کتے کو پانی
پلایا جس کے سبب اس کی مغفرت ہو گئی۔ (صحيح البخاری ،كِتَاب الشُّرْبِ
والْمُسَاقَاةِ،بَابُ فَضْلِ سَقْيی الْمَاءِ، جلد1، حدیث:2363، ص416)
(2)سامان
لادنے میں احتیاط: امام احمدبن
حجرمکی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں: انسان نے ناحق کسی چوپائے
کو مارا یا اسے بُھوکا پیاسا رکھا یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا تو قِیامت کے دن
اس سے اسی کی مِثْل بدلہ لیا جائے گاجو اس نےجانور پرظلم کیایااسےبھوکارکھاہوگا۔(الزواجر
عن اقتراف الکبائر ، 2/ 174)
( 3)
ظلم نہ کرنا: رَحمت ِ عالَم ،نورِ
مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےجہنَّم میں ایک عورت
کو اس حال میں دیکھاکہ وہ لٹکی ہوئی ہے اورایک بلّی اُس کے چہرےاورسِینےکونوچ رہی
ہےاوراسےویسےہی عذاب دےرہی ہے جیسےاس (عورت)نےدنیا میں قید کر کےاور بھُوکارکھ
کراسے تکلیف دی تھی۔ (صحیح البخاری،کتاب المساقاۃ،باب فضل سقی الماء،جلد1،حدیث2364
ص416مفہوماً )
ڈنک مچھر کا سَہا جاتا نہیں،کیسے میں پھر
قبر میں بچھّو کے ڈنک آہ سہوں گا یاربّ!
(4)جانوروں
کو آپس میں لڑانے کی ممانعت: رسول
اللہ ﷺ نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد،كِتَاب
الْجِهَادِ، باب فِی التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ،جلد1حدیث:2562 ص370 )
(5)جانوروں
کو ذبح کرنے میں بھی احتیاط: اللہ
تعالی نے بعض جانوروں کو ذبح کرکے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے
جانوروں کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے لیکن اس میں بے راہ روی اور
ظلم وزیادتی ناروا سلوک کرنا غیردرست ہے جس طرح کہ آپ ﷺ نے ذبح کے تین آداب بیان
فرمائے ہیں :(1) اچھی طرح ذبح کرے(2) ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے(3)اسے اذیت سے
بچانا (مثلا ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے)(صحیح
مسلم،كِتَاب الصَّيْدِ ...الخ،باب الأَمْرِ بِإحسان...الخ،جلد2،حدیث5053ص232 )
پیارے اسلامی
بھائیو! ہمیں جانوروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ حتی المقدور ان
کو مدنظر رکھناچاہئے کیونکہ جانور بھی احساس رکھتے ہیں، تکلیف محسوس کرتے ہیں، اور
فطری طور پر امن اور محبت کے خواہاں ہوتے ہیں ان کے حقوق کا تحقظ ایک مہذب معاشرے
کا طریق ہے اور اس سے ہمیں مغفرت و جنت کی لازوال نعمتوں کی توفیق مل سکتی ہے ۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں ان حقوق کی نگہبانی و پاسبانی کی توفیق بخشے۔ آمین
احمد صدیقی (درجہ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
دین اسلام جس
طرح ہمیں انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح جانوروں کے ساتھ
اچھا سلوک کرنے اور ان کے حق ادا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے ، آیئے جانوروں کے چند
حقوق پڑھیئے :
(1)
جانوروں کو مثلہ نہ کرو : حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے یعنی جو جانوروں کے
اعضا کو کاٹے ۔ (جامع الاحادیث، جلد 4،حدیث نمبر 2384،صفحہ 201)
(2)جانوروں
کے دانہ پانی کا خیال رکھو : حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی بلی کے سبب کے اسے باندھے رکھا تھا نہ خود
کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی ۔ (جامع
الاحادیث ، باب جلد 4 صفحہ نمبر 199 حدیث نمبر : 2380 اکبر بک پبلشر لاہور )
(3)
سواری کے جانور کا خیال کرو: روایت
میں ہے کہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی
ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چو پایوں کے
معاملے میں اللہ پاک سے ڈرو ان پر اس وقت سوار ہوں جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور
انہیں اسی وقت کوڑا مارو جب یہ ٹھیک ہوں ۔ ( ابو داؤد ، کتاب الجہاد ، باب ما یؤمربہ
من القیام علی الدواب و البھائم، جلد 4، صفحہ نمبر 32 حدیث نمبر 2548)
(4) جانوروں کو برا نہ کہنا :حضرت خالد بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ نماز کی اطلاع
دیتا ہے ۔(مراۃ المناجیح،شرح مشکواۃ المصابیح،باب کس جانور کو کھانا حرام اور کس
کوحلال)
(5)
جانوروں کے کھلانے پر اجر: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ہر گرم جگر والے کو کھلانا ثواب ہے ۔ (جامع الاحادیث، جلد چہارم ، ، صفحہ نمبر 199)
موجودہ دور میں
جانوروں کے ساتھ کئی طرح سے ظلم کیے جاتے ہیں اور ان کی حق تلفی کی جاتی ہے ، ہمیں
چاہیے کہ جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔
محمد قاسم عطاری (درجہ اولی
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
اسلام ایک پیارا
دین ہے ،اسلام انسان کو زندگی گزارنے کے اچھے طریقے بتاتا ہے اسی طرح جانوروں کے
بھی حقوق ہیں جس طرح انسان دوسرے انسان کا خیال رکھتا ہے اسی طرح انسانوں کو
جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے آئیے جانوروں کے بارے میں آپ بھی پڑے :
(1)جانوروں کو تکلیف نہ دینا : مستحب یہ ہے کہ ذبح سے پہلے چھری تیز کر لیں کند
چھری یا ایسی چیزوں سے ذبح کرنے سے بچے جس سے جانور کو ایذا ہو ۔ (بہار شریعت جلد
3 حصہ 15 باب ذبح کا بیان، صفحہ نمبر ، 3 ،مکتبۃالمدینہ )
(2)ناحق
قتل نہ کرنا : حضرت عبداللہ بن عمر
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک
عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھے رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ
چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی ۔ (الجامع الصحیح البخاری
،باب خمس من الدواب فواسق، صفحہ،467)
(3)جانور
نہ لڑوانا: حضرت عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم
لڑانے سے منع کیا ۔ (جامع الاحادیث ، ، جلد 4، صفات200، حدیث نمبر 2382)
(4)جانوروں
کو مثلہ نہ کرنا : حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے یعنی جو جانوروں کے اعضا کو کاٹے ۔ (جامع
الاحادیث، ،جلد 4،حدیث نمبر 2384،صفحہ 201)
(5)جانوروں
کو برا نہ کہنا :حضرت خالد بن زید
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا اور
فرمایا کہ یہ نماز کی اطلاع دیتا ہے ۔(مراۃ المناجیح،شرح مشکواۃ المصابیح،باب کس
جانور کو کھانا حرام اور کس کوحلال)
ہمیں چاہیے کہ
ہم جانوروں کے حق ادا کرتے رہیں ان کو کھانا پانی دیتے رہے اور ان کا خوب خیال رکھیں
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
محمد ہاشم عطاری (درجہ اولی جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
اللہ پاک سے
انسانوں کے نفع کے لیے ایک عظیم نعمت چوپائے عطا فرمائی جن سے انسان اپنی ضروریات
زندگی پوری کرتا ہے اور اللہ پاک نے ان جانوروں کو انسانوں کے تابع کیا ہے لیکن
مخلوق ہونے کی بنا پر ان کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کے مدنظر رکھتے ہوئے انسانوں کو
ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اسی لیے میں نے اس موضوع کو قلم بند کرنے کی کوشش
کی ہے تاکہ لوگ اس بے زبان مخلوق کے بھی حقوق کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمل
کریں۔
(1)
بلا وجہ جانور کو برا نہ کہنا :
روایت ہے حضرت خالد بن زید سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ
کو برا کہنے سے منع کیا ، اور فرمایا کہ یہ نماز کی اطلاع دیتا ہے ۔ (کتاب مشکاۃ
المصابیح ، باب کس جانور کا کھانا حلال اور کس جانور کا حرام ہے، جلد 5 صفحہ نمبر
700 حدیث نمبر 3955 مکتبہ اسلامیہ )
(2)
جانوروں کا خیال رکھنا : روایت میں
ہے کہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی
ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چو پایوں کے
معاملے میں اللہ پاک سے ڈرو ان پر اس وقت سوار ہوں جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور
انہیں اسی وقت کوڑا مارو جب یہ ٹھیک ہوں ۔ ( ابو داؤد ، کتاب الجہاد ، باب ما یؤمربہ
من القیام علی الدواب و البھائم، جلد 4، صفحہ نمبر 32 حدیث نمبر 2548)
(3)
روح کو نشانہ نہ بناؤ : صحیح مسلم
میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کے رسول اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :
جس میں روح ہو اس کو نشانہ نہ بناؤ ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الصید ، باب النھی عن
صبرالبھائم حدیث نمبر 1958صفحہ نمبر 1080)
(4)
جانوروں کے دانہ پانی کا خیال رکھنا : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب اسے باندھے رکھا تھا
نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی۔ (بہار
شریعت جلد 3 حصہ نمبر15، ذبح کا بیان صفحہ نمبر ،311 حدیث نمبر ،12)
(5)
ناحق قتل کرنا : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جس
نے چڑیا یا کسی جانور کو ناحق قتل کیا اور اس سے اللہ قیامت کے دن سوال کرے گا، عرض
کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: اس کا
حق یہ ہے کہ ذبح کرے اور کھائے یہ نہیں کہ سرکاٹے اور پھینک دے ۔ (المسند الامام
احمد بن حنبل،مسلم عبداللہ بن عمر، الحدیث: 6562 ، جلد نمبر2، صفحہ نمبر 567)
اسامہ مشتاق ( درجہ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
اللہ پاک نے
انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے انہی نعمتوں میں سے چوپائے یعنی جانوربھی ہیں
بنی نوع انسان اپنی ضروریات زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں
تو جس طرح ان سے نفع حاصل کرتے ہیں اسی طرح انسانوں پر یہ لازم ہے کہ ان بے زبان
جانداروں پر ظلم نہ کریں جو ان کے حقوق بنتے ہیں وہ ادا کرے تو اس مضمون میں میں
نے ان احادیث کو ذکر کیا ہے جس میں نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں پر رحم
کرنے اور ان پر ظلم نہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے :
جانوروں پر نرمی کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم سرسبز زمین میں سفر کرو تو اونٹوں
کو زمین سے ان کا حصہ دو اور جب بنجر زمین میں سفر کرو تو انہیں تیز چلاؤ اور ان
کے تھکنے سے پہلے وہاں سے گزر جاؤ اور جب تم رات میں قیام کرو تو راستے میں اترنے
سے بچو کیونکہ وہ جانوروں کا راستہ ہے اور وہ جگہ رات کے وقت کیڑے مکوڑوں کا
ٹھکانہ ہے۔ (شرح مسلم للنووی ،کتاب الامارہ ،باب مراعاۃ مصلحۃالدوب فی السیر
الخ،جلد 7،حدیث 69،الجزء ثالث عشر ملخصاً )
جانوروں کا خیال رکھنا :حضرت سیدنا سہل بن عمرو اور ایک قول کے مطابق سہل بن ربیع
بن عمرو انصاری جو کہ ابن حنظلہ کے نام سے مشہور ہیں اور اہل بیت رضوان میں سے ہیں
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونٹ کے پاس سے
گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان بے
زبان چوپایوں کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو، ان پر اس وقت سوار ہو جب یہ صحیح
حالت میں ہوں اور انہیں اس وقت کھاؤ جب یہ ٹھیک ہوں۔ (ابوداؤد،کتاب الجہاد ،باب مایؤمربه من القیام علی
الدواب والبهائم،32/3،حدیث 2548)
ناحق قتل نہ کرنا:احمدونسائی و درامی عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنھا سے
راوی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے چڑیا یا کسی جانور کو ناحق قتل
کیا اس سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا، عرض کیا گیا : یا رسول الله صلی
علیہ وسلم اس کا حق کیا ہےفرمایا اس کا حق یہ ہے کہ ذبح کرے اور کھائے یہ نہیں کہ
سرکاٹے اور پھینک دے ۔(المسند للام احمد بن حنبل، مسند عبد الله بن عمرو، الحدیث:
6562،ج 6، ص 567)
جانوروں کے دانے پانی کا خیال رکھنا: حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک
بلی کے سبب کہ اسے باندھے رکھا تھا، نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا
یاجوجانور اس کو ملتا کھاتی۔(جامع الاحاديث، كتاب الحيوانات،ج4،ص199،حدیث2380)
جانوروں
کو نہ لڑوانا:حضرت عبد الله بن
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم
لڑانے سے منع فرمایا۔(السنن لابی داؤد، باب فى التحريش بين البهائم ، 346/1)
اللہ پاک ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے
اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
محمد صدام حسین عطاری (تخصص فی
الحدیث جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
ایک شکاری ہرنی
کا شکار کر کے لے جا رہا تھا کہ اس کا گزر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے
ہوا ۔ جس رب العالمین نے ہر چیز کو بولنے کی صلاحیت بخشی ہے ہر نی کو بھی بولنے کی
طاقت عطا فر ما دی ۔اس نے کہا: یا رسول میرے بچے ہیں میں ان کو دودھ پلاتی ہوں ابھی
بھوکے ہیں اس کو حکم ارشاد فرما ئیے مجھے چھوڑ دے تاکہ میں جا کر بچوں کو دودھ پلا
سکوں اور میں واپس آ جاؤں گی ۔نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔تو اگر لوٹ
کر نہ آئی تو ۔۔عرض کی: اگر لوٹ کر نہ آؤ ں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی ایسے لعنت ہو
جیسے اس پر ہو تی ہے جس کے سامنے آ پ کا ذکر ہو اور وہ درود نہ پڑھے یا میں اس شخص
کی طرح ہو جاؤں جو نماز پڑھے لیکن دعا نہ مانگے ۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے شکاری سے فرمایا: اس کو چھوڑ دے میں اس کا ضامن ہوں۔پھر ہرنی چلی گئی(دودھ پلا
کے) پھر واپس آ گئی۔ (القول البدیع ، الباب الثالث فی التحذیر من ترک الصلاۃ علیہ
عند ما یذکر صلی اللہ علیہ وسلم ۔ص 313 ،محمد بن عبد الرحمن سخاوی ۔دارالکتب)
اس واقعے سے
ہمیں جانوروں کے ساتھ ہمدردی ، بھلائی اور ان کے تحفظ حقوق کا بہترین سبق ملتا ہے
۔ اسلام کی کئی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کے حقوق واضح کیے ۔
اور ان کو پورا کرنے پر اجر عظیم کی بشارتیں سنائیں ۔
(1) جانور بھی
مخلوق خدا ہیں ان کے حقوق سے آ گاہ کرنے کے ساتھ ساتھ پورا کرنے کا حکم بھی دیا
۔اور پورا کرنے والے کے لیے اجر بھی بیان فرمایا ۔جانورں کے کئی طرح کے حقوق ہیں
مثلاً :ان کی بھوک پیاس کا خیال رکھا جائے ۔احادیث میں اس کی ترغیب موجود ہے، حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایک آ دمی نے پیاسے کتے کو اپنے موزے سے پانی پلایا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش
کردی۔صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی ۔کیا ہمیں چوپایوں پر بھی اجر ملے گا؟
فرمایا: ہر جاندار میں ثواب ہے ۔ (بخاری، جلد 3 ،صفحہ ،230۔حدیث نمبر 2374)
(2) ان کے لئے
گرمیوں میں چھاؤں کا اور سردیوں میں دھوپ کا بہترین انتظام کیا جائے ۔ اور جانوروں
کا خیال نہ رکھنے اور ان کو بھوکا پیاسا رکھنے والوں کےلئے وعید سنائی ۔جیسے
عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت
کو عذاب بلی کی وجہ سے ہوا جس کو اس نے کافی دیر باندھے رکھا اور اس کو کھا نا نہ
دیا اور نہ ہی اس کو چھوڑا کہ وہ زمین سے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔(بخاری ۔جلد 3،ص
237، حدیث نمبر : 3715 )
(3)
جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لاداجائے : بلا
وجہ تنگ نہ کیا جائے اور نہ بلا وجہ مارا جائے ۔خاص طور کتے کو کیونکہ حدیث پاک میں
اس کو بلا وجہ مارنے سےخصوصاً منع کیا گیا ۔حضرت عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا کہ کتے بھی مخلوق میں سے
مخلوق ہیں تو میں ان سب کے قتل کا حکم دیتا ۔(مرآ ۃ المناجیح ،جلد ،5، ص642، حدیث :3923)
اس کے تحت مفتی
احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : بلا ضرر (نقصان نہ دینے کی صورت میں)اس کا مارنا
ممنوع ۔ (مرآ ۃ المناجیح ،جلد ،5، ص642، حدیث :3923)
جانوروں کے
ساتھ ایسی کوئی حرکت نہ کی جائے جس سے وہ ڈر جائیں مثلاً ان کے پاس شور نہ کیا
جائے ۔ گاڑی یا بائیک ان کے پاس لا کر ایک دم ہارن نہ بجا یا جائے ۔ تماشہ دیکھنے
کےلئے جانوروں کو آ پس میں نہ لڑایا جا ئے ۔ کیونکہ اس سےجا نور شدید زخمی ہو جا
تےہیں بلکہ بعض دفعہ مر بھی جاتے ہیں۔
حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور لڑوانے سے منع
فرمایا ۔ ( مرآ ۃ المناجیح جلد 5 ۔مفتی احمد یا خان نعیمی۔حدیث نمبر ،3924 ۔صفحہ
،643 )
مفتی احمد یار
خان نعیمی اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : اللہ رحم فرمائے ۔آج مسلمانوں میں مرغ
لڑانا ،کتے لڑانا اور اونٹ بیل لڑانے کا بہت شوق ہے ۔یہ حرام سخت حرام ہے اس میں
بلا وجہ جانور کو ایذا رسانی ہے ۔اپنا وقت ضائع کرنا ہے ۔ بعض جگہ ما ل کی شرط پر
جا نور لڑائے جاتے ہیں یہ جوا بھی ہے ۔حرام در حرام ہے۔ ( مرآ ۃ المناجیح جلد 5
۔مفتی احمد یا خان نعیمی۔حدیث نمبر ،3924 ۔صفحہ ،643 )
فریشمینٹ
کے لیے جانوروں کا شکار نہ کیا جائے : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے اس پر لعنت کی جس نے ذی روح کو
نشانہ بنایا۔ ( صحیح مسلم ،جلد2،دارالطباعۃ، العامرہ،باب النھی عن صبرالبھائم
،الحدیث: 1957، ص 73 )
رسول اﷲ
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:’’جس نے چڑیا یا کسی جانور کو ناحق قتل کیا
اس سے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا، عرض کیا گیا : یارسول اﷲ ! ( صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ’’ اس کا حق یہ ہے کہ
ذبح کرے اور کھائے یہ نہیں کہ سر کاٹے اور پھینک دے۔(مسند احمد، جلد 11، ص 448۔ حدیث
6862 )
دین اسلام ایسا
مذہب ہے جسکی تعلیم میں انسانوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی بہت
خیال رکھا گیا ہے جس طرح کسی انسان پر ظلم و زیادتی حرام ہے اسی طرح جانوروں پر بھی
ظلم و زیادتی حرام ہے بلکہ جانوروں پر ظلم کرنا انسان پر ظلم کرنے سے زیادہ بڑا
گناہ ہے ، انسان تو اپنا دکھ درد کسی سے کہہ سکتا ہے مگربے زبان جانور کس سے فریاد
کرے ؟ جانور بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کو انسان کے کاموں میں مددگار بنایا
، الله عزوجل قرآن پاک میں سورۂ النحل کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا : وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا
وَ زِیْنَةًؕ-وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸) ترجمۂ کنزالعرفان: اور (اس نے)
گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت
ہے ۔ (پ14، النحل: 08)
یعنی اللہ
تعالیٰ نے گھوڑے،خچر اور گدھے بھی تمہارے نفع کے لئے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ی
کرو اور ان میں تمہارے لئے سواری اور دیگر جو فوائد ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہ تمہارے
لئے زینت ہیں۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۵۶۲)
یہ آیت ہمیں یہ
بھی سکھاتی ہے کہ چونکہ جانور ہمارے لیے اللہ کی نعمت ہیں اور ہمارے لیے محنت کرتے
ہیں، اس لیے ان پر ظلم نہیں کرنا چاہیے، نہ ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنا چاہیے۔
حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری کے بعد حضور ﷺ نے ہمیں جانوروں کے حقوق بتائے
جن سے جانوروں کے حقوق اور انکی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔
(1)
جانوروں کو تکلیف نہ پہنچانا : اسی
طرح جانوروں کو ظلم سے بچانا اسلام کا ایک واضح اور اہم حکم ہے، اور نبی کریم ﷺ نے
اس بارے میں نہایت مؤثر اور عبرت آموز احادیث ارشاد فرمائیں ہیں۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله
عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي
هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ
الأَرْضِ (صحیح البخاری/کتاب بدء
الخلق/باب خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ/ج3 ،ص501،
حدیث:3318 دارالسلام)
ترجمہ : نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ، ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی ،
اس نے بلی کو باندھ کر رکھا ، نہ تو اسے کھانا دیا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے
مکوڑے کھا کر اپنی جان بچا لیتی ۔
تو اس حدیث سے
واضح ہوتا ہے کہ جانوروں پر ظلم صرف دنیاوی جرم نہیں بلکہ آخرت میں اسکی سزا ملے گی
جیسا کہ اس عورت کو بلی پر ظلم کرنے کی وجہ سے ملی ، نبی کریم ﷺ نے جانوروں کے
ساتھ ظلم پر جہنم کی وعید دی ہے، نیز نبی پاک کے اس فرمان سے یہ بھی واضح ہو رہا
ہے کہ جانوروں کو بغیر مقصد قید کرنا بھی جانوروں پر ظلم کرنا ہے ۔
(2)
کام میں اعتدال کا حق: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ
ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ، فَقَالَ : اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ
الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً (سنن ابی داؤد/کتاب الجہاد/باب ما یؤمر به من لقیام علی
الدواب والبهائم/ج3 ،ص91،حدیث:
2548 دارالسلام ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس
کا پیٹ اس کی پشت سے مل گیا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان بے
زبان چوپایوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو ، ان پر سواری بھلے طریقے سے کرو اور ان کو
بھلے طریقے سے کھاؤ ۔
(3)
ذبیحہ پر رحم کرنا اور حسن سلوک کرنا: فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ كَتَبَ الْإِحْسَانَ
عَلَى كُلِّ شَيْءٍ،فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ،وَإِذَا
ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَ،وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ،وَلْيُرِحْ
ذَبِيحَتَهُ بیشک اللہ عزوجل نے ہر
چیز میں احسان (رحم اور انصاف) کو فرض قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح
قتل کرو (تاکہ مخلوق کو تکلیف نہ ہو) اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور چاہیئے
کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کر لے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ (سنن
ابن ماجہ ، كتاب الذبائح، باب اذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، ج4، ص429،حدیث: 3170دار السلام)
ہم نے جانا کہ
اسلام صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ جانوروں پر بھی عدل و رحم کا حکم دیتا ہے ہمیں
چاہیے کہ جانورں کے ساتھ عدل و رحم کریں جیسا کہ قرآن پاک اور احادیث نبوی سے واضح
ہوا۔ اللہ عزوجل ہمیں جانوروں پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کی حق تلفی
سے بچائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
برہان عمر (درجہ سادسہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
انسان اشرف
المخلوقات ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت، عبادت اور اطاعت کے لیے پیدا فرمایا
اور دنیا کی تمام نعمتیں، مخلوقات اور وسائل انسان کی خدمت کے لیے مسخر کیے۔ جیسا
کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی
الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ ترجمہ
کنزالایمان: وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنایا جو کچھ زمین میں ہے۔(پ1،البقرہ: 29)
انسان کو عطا
کردہ انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت جانور بھی ہیں، جو انسان کی ضروریات، سہولت
اور معیشت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جانوروں کے ذریعے انسان خوراک، لباس، سواری،
باربرداری، اور حتیٰ کہ تحفظ تک کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ الله پاک نے اس نعمت کا
ذکر قرآن پاک میں ایک مقام پر یوں فرمایا: وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ-لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ
مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۪(۵) ترجمہ کنزالایمان: اور چوپائے پیدا کیے ان میں
تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو ۔(پ14،النحل:
5)
اسلام نے جہاں
انسان کو ان جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی وہیں اسے اس بات کا پابند بھی
بنایا ہے کہ وہ ان جانوروں سے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی نفع حاصل کرے۔ شریعت
مطہرہ نے جانداروں، بالخصوص جانوروں کے حقوق کی ادائیگی کی جابجا مقامات پر تاکید
فرمائی ہے۔آئیے! ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانوروں کے چند اہم حقوق کا جائزہ
لیتے ہیں تاکہ ان باتوں پر عمل کرکے ہمارا رویہ ان کے ساتھ ایسا ہوجائے جیسا شریعت
ہم سے چاہتی ہے اور ہم الله و رسول عزوجلّ وصلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا کے
مستحق بن جائیں۔
(1)
جانوروں کا حقِ خوراک: جانوروں کا
سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی خوراک ، چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھیں۔ ہر
جانور کو اس کی فطرت اور ضرورت کے مطابق چارہ یا دانہ دیا جائے، جیسا وہ عام طور
پر کھاتا ہے۔ ان کو بھوکا رکھ کر ان پر ظلم نہ کیا جائے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے
کہ ایک عورت کو عذاب ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا کہ
وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ (بخاری،کتاب
المساقاۃ، باب فضل سقي الماء۔ص660،حدیث:2365)
(2)
جانوروں پر رحم اور ان سے اچھا سلوک کرنا : جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا
جائے اور ان پر رحم کیا جائے۔ ایک حدیث مبارکہ میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے
والے کے لیے جنت کی بشارت بھی موجود ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت
ہے فرماتے ہیں کہ رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس فاحشہ عورت کی
مغفرت ہو گئی جو ایک کتے پر گزری جو ایک کنوئیں کے کنارے ہانپ رہا تھا قریب تھا کہ
پیاس کی شدت اسے ہلاک کردیتی اس عورت نے اپنا موزہ اتارا اسے اپنے دوپٹے سے باندھا
اور اس طرح پانی نکالا اسی وجہ سے وہ بخش دی گئی ، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی
بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ کیا حیوانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے بھی ہمارے لیے
اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر جان دار چیز کے ساتھ اچھا
سلوک کرنے میں اجر ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الزکوۃ، صدقہ کی
فضیلت، جلد:3 ، حدیث نمبر:1902 )
(3)
ذبح کرتے وقت احتیاطی تدابیر: نبی
کریم ﷺ نے جانوروں کے ذبح کے وقت بھی جانوروں کے ساتھ نرمی اور ان کو تکلیف سے
بچانے کی سخت تاکید فرمائی ہے چنانچہ حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ
ایک شخص بکری کو لٹاکر اس کے سامنے چھری تیز کرنے لگا، تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی چھری اسے لِٹانے سے قبل تیز
کیوں نہیں کرلی؟ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان
کو لازم قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب ذبح کرو
تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے
اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے۔(سنن نسائي، كتاب الضحايا،باب الأمر بإحداد
الشفرة، حدیث نمبر: 4410)۔
محمد مبشر عبدالرزاق (درجہ سادسہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
جانور اللہ
پاک کی پیاری و نرالی مخلوق ہے ، قدرت کا انمول تحفہ، اور ماحول کا حسن ہے جو نہ صرف
انسیت کا ذریعہ ہے بلکہ بہت سے معاشی فوائد کا بھی سبب ہے جانور دودھ، گوشت ، ہڈیاں
، اون کے حصول کا ذریعہ ہیں، ان کے حقوق کی ادائیگی اور حسن سلوک اللہ پاک کی رضا
اور آخرت میں کامیابی اور ثواب کا ذریعہ ہے ان کے حقوق کی عدم ادائیگی اور ان پر
ظلم اللہ پاک کی نافرمانی، گناہ اور دخول جہنم کا سبب بن سکتا ہے دین اسلام کی ایک
خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے جانور کے حقوق کو بھی اجاگر فرمایا آئیے ہم بھی ان میں سے
چند حقوق پڑھتے ہیں اور عمل کی نیت کرتے ہیں:
(1) وقت پر
کھانا دینا: جانور کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کو وقت پر کھانا وغیرہ دیا جائے اور
بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے ایک عبرت ناک حدیث پاک میں ہے
کہ رَحمت ِ عالَم ،نورِ مُجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہنَّم
میں ایک عورت کو اس حال میں دیکھا کہ وہ لٹکی ہوئی ہے اور ایک بلّی اُس کے چہرے اور
سینے کو نوچ رہی ہے اور اسے ویسے ہی عذاب دے رہی ہے جیسے اس(عورت) نے دنیا میں قید
کر کے اور بھوکا رکھ کراسے تکلیف دی تھی۔ اس روایت کا حکم تمام جانوروں کے حق میں
عام ہے۔(صحیح البخاری،کتاب المساقاۃ،باب فضل سقی الماء،ص 218 ، ج2 ،الحدیث:2363
مفہوماً )
(2) رحم کرنا:
جانوروں پر رحم اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا اللہ پاک کی خوشنودی اور اجر و ثواب
کا سبب ہے جیسا کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے فرمایا: اگر اس پر
رحم کرو گے اللہ بھی تم پر رحم فرمائے گا، (مسند احمد بن حنبل ج5 ص 304 حدیث
15592)
(3) بقدرِ
طاقت کام لینا: جانور سے اس کی طاقت کے مطابق کام لیا جائے اور اس پر زیادہ بوجھ
سوار نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو مارا جائے جیسا کہ امام احمد بن حجر مکی شافعی
علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: انسان نے ناحق کسی چوپائے کو مارا یا اسے بھوکا
پیاسا رکھا یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا تو قِیامت کے دن اس سے اسی کی مثل بدلہ
لیا جائے گا جو اس نے جانور پر ظلم کیایا اسے بھوکا رکھا( الزواجر عن اقتراف
الکبائر، ج2، صحیح 174)
(4) ظلم نہ
کرنا: جانور پر ظلم کرنا اور اسے تکلیف دینا حرام اور ناجائز ہے جیسا کہ بہار شریعت
میں ہے: جانور پر ظلم کرنا ذمی کافر پر ظلم کرنے سے زیادہ برا ہے اور ذمی پر ظلم
کرنا مسلم پر ظلم کرنے سے بھی برا ہے کیوں کہ جانور کا کوئی معین و مددگار اللہ کے
سوا نہیں اس غریب کو اس ظلم سے کون بچائے ۔ (در مختار و رد المختار ج9 ص 662)
(5) بلا وجہ
نہ مارنا : جانور کو بلا وجہ مارنا و قتل کرنا اور اس کو تفریح کے طور پر شکار
کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جیسے کہ امیرِ اہلِ سنّت علّامہ محمد
الیاس قادری صاحب فرماتے ہیں :ہمارے یہاں گلیوں مىں پھرنے والے کتوں کو عُموماً
بچّے مارتے ہىں اور جب وہ بھونکتے ہیں تو مزے لىتے ہىں ، بِلاوجہ ان کتوں کو مارنا
ظلم ہے۔ یاد رکھئے!جانور کى بَددُعا بھى مقبول ہے۔ اپنا یہ ذہن بنا لیجئے کہ نہ
کتے کو مارنا ہے اور نہ ہی بلى اور چیونٹى کو ، اس لئے کہ چیونٹى کو بھى بِلاوجہ
مارنا ناجائز و گناہ ہے۔ بچّے اس بے چاری کو مارتے رہتے ہیں تو بچّوں کو ایسا کرنے
سے روکنا چاہئے۔ (ملفوظاتِ امیرِاہلِسنّت(قسط24) ، کتے کے متعلق شرعی احکام ،
ص27ملخصاً)
پیارے اسلامی بھائیو!دینِ
اسلام کی خوبی ہے کہ اس نے انسانوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال
رکھا ہے ۔جس طرح کسی انسان پر ظلم و زیادتی حرام ہے، اسی طرح جانوروں کو بُھوکا پیاسا
رکھنا ،مارپیٹ کرنا تکلیف پہنچانا بھی حرام ہے بلکہ جانوروں پر ظلم کرنا انسان پر
ظلم کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے کہ انسان تو اپنا دکھ درد کسی سےکہہ سکتا ہے ،قدرت
رکھتا ہو تو بدلہ بھی لے سکتا ہے مگربے زبان جانورکس سےفریاد کرے؟ افسوس صدافسوس !
فی زمانہ جانوروں پر جیسا ظلم کیا جاتا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کبھی تو ان بے
زبانوں کو وقت پر پانی اور چارہ نہیں دیاجاتا،تو کبھی گرمیوں کی سخت دھوپ میں یا
سردیوں کی سخت ٹھنڈی راتوں میں یونہی کھلےآسمان کےنیچے باندھ دیا جاتا ہے ،کبھی ان
پر طاقت سےزیادہ سامان لاد کر لمبے فاصلے تک زبردستی لے جایا جاتاہے ، منڈی سے
لانے کیلئے گاڑی پر چڑھانے اور اُتارنےکا مناسب انتظام نہیں کیا جاتا اور گاڑی میں
ریت یا بُھوسہ وغیرہ نہیں ڈالا جاتا ، جس سے کئی جانور زخمی ہوجاتےہیں ایسا کرنا
حرام و ناجائز اور اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب ہے۔
محمد عمر رضا (دورہ حدیث مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی ،پاکستان)
اسلام ہمیں نہ
صرف انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کے ساتھ حسنِ سلوک، رحم اور عدل کا درس دیتا ہے۔ ہم
ہر روز انسانوں کے حقوق پر گفتگو کرتے ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جانوروں کے
بھی کچھ حقوق ہیں؟
وہ بےزبان مخلوق جو ہماری خدمت میں
لگی ہوئی ہے، جنہیں اللہ پاک نے انسان کے لیے مسخر فرمایا، ان پر ظلم نہ صرف گناہ
بلکہ غضبِ الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ آپ بھی
جانور کے چند حقوق ملاحظہ کیجیے اور نیت کریں کہ اس پر عمل بھی کریں گیں ۔
جانوروں
کے حقوق ، قرآن و سنت کی روشنی میں
(1) خوراک و پانی کا حق:عَنْ اَبیْ ھُرَیْرَۃَ
عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ رَجُلًا رَاٰی کَلْبًا
یَأْکُلُ الثَّریٰ مِنَ العَطَشِ فَاَخَذَ الرَّجُلُ خُفَّہٗ فَجَعَلَ یَغْرِفُ
لَہٗ بِہٖ حَتّٰی اَرْوَاہُ فَشَکَرَ اللہ لَہٗ فَاَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ حضور نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ایک
آدمی نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی و جہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا تو اس شخص نے اپنا
موزہ لیا اور اس میں چلو سے پانی بھر کر اس کتے کو پلایا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگیا
تو اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ کام پسند آیا اور اس کو جنت میں داخل کردیا۔ (صحیح
بخاری، حدیث نمبر:173، 83/1
)
(2) ظلم سے تحفظ کا حق :عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ
صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:دَخَلَتْ اِمْرَأَۃٌ النَّارَ فِیْ ھِرَّۃٍ رَبَطَتْہَا
فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَأْکُلُ مِنْ خُشَاشِ الْاَرْضِ یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت ایک بلی کے معاملہ میں جہنم میں داخل
ہوئی۔ اُس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا نہ تو اس کو کچھ کھلایا نہ اس کو چھوڑا کہ
وہ حشرات الارض کو کھاتی (صحیح بخاری، جلد 2، ص 408، حدیث نمبر 3318)
۔(یہاں تک کہ وہ بھوکی مرگئی)
پیارے اسلامی بھائیو ! دور حاضر میں بھی ہم
دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ جانوروں کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھ کر ان پر ظلم کرتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کو بھی اکثر بے دردی سے مارا جاتا ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے
سراسر منافی ہے۔اسلام تو ہمیں جانوروں پر رحم کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگر ہم ان
احادیث کو مدنظر رکھیں اور جانوروں کے حقوق پورے کریں جیسا پورا کرنے کا حق ہے تو
ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ ہوگا ۔ اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔ امین
ہمارا پیارا دین
اسلام ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ
ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی اچھے انداز میں پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے اور وہیں ہمارا
اسلام جانوروں کے ساتھ ظلم نہ کرنے اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے اور جو
ظلم کرتا ہے اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے، چنانچہ حضرت سیدنا شیخ محمد اسماعیل بخاری
علیہ رحمۃ الله الباری صحیح بخاری میں نقل کرتے ہیں: حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی
الله تعالی عنہ سے روایت ہے سرکار مدینہ صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: بے
شک الله ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھر اس
کو نہیں چھوڑتا یہ فرما کر سرکار نامدار صلی الله علیہ وسلم نے پارہ 21 سورہ ہود آیت
نمبر 102 تلاوت فرمائی : (ترجمہ کنز الایمان :اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب
بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر بےشک اس کی پکڑ دردناک کرّی(سخت) ہے )۔ (صحیح
البخاری ج3 ص247 حدیث 4686)
جس طرح ہم پر
انسانوں کی حقوق ہوتے ہیں اسی طرح جانوروں کے بھی ہم پر حقوق ہیں لہذا جانوروں کو
بلا وجہ شرعی تکلیف پہنچانا جائز نہیں، حضرت احمد بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں: ہم وفد کی صورت میں ایک بار بارگاہ فاروقی میں عظیم فتح کی خوشخبری لے
کر حاضر ہوئے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے استفسار فرمایا: تم لوگ کہاں ٹھہرے ہو? میں
نے جگہ کے بارے میں بتایا تو آپ رضی الله تعالی عنہ ہمارے ساتھ اس جگہ تک آئے اور
ہر سواری کو غور سے دیکھتے رہے پھر فرمایا تم لوگ ان سواریوں کے معاملے میں الله
عزوجل سے نہیں ڈرتے؟ تم نہیں جانتے کہ ان جانوروں کا بھی تم پر حق ہے۔(تاریخ دمشق،
33/ 291 ملتقطاً)
سرکارابدقرار
شفیع روز شمار صلی الله علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: ان جانوروں پر اچھی طرح
سواری کرو اور (جب ضرورت نہ ہو تو) ان سے اتر جاؤ راستوں اور بازاروں میں گفتگو
کرنے کے لیے انہیں کرسی نہ بنا لو کیونکہ کئی سواریوں کے جانور اپنے سوار سے بہتر
اور اس سے زیادہ الله عزوجل کا ذکر کرنے والے ہوتے ہیں۔ (جامع الاحادیث۔1/404.حدیث
2865)
حضرت سیدنا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ہم سرکار مدینہ قرار قلب و سینہ
صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو
ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے انہیں پکڑ لیا چڑیا ائی اور پھڑ
پھڑانے لگی سرکاری نامدار مدینے کے تاجدار صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو دریافت
فرمایا کس نے اس کے بچوں کے معاملے میں تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو۔
(ابوداؤد 3/85 حدیث: 2685)
سرکار مدینہ
قرار قلب و سینہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی چڑیا کو بلا
ضرورت قتل کریگا وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ عزوجل کے بارگاہ میں فریاد کرتے ہوئے
عرض کرے گی : اے میرے رب مجھے بلا ضرورت قتل کیا تھا کسی نفع کے لیے قتل نہیں کیا۔
(نسائی،3/83 حدیث:4535)
Dawateislami