عورت کی زندگی میں یوں تو بہت سے موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص قابل ذکر ہیں۔ (1۔) عورت کا بچپن (2۔) عورت بالغ ہونے کے بعد (3۔) بیوی بن جانے کے بعد (4۔) ماں بن جانے کے بعد

شادی ہونے کے بعد/بیوی بن جانے کے بعد اسی طرح عورت پر مرد کے حقوق لازم ہوتے ہیں جس طرح مرد پر عورت کے حقوق لازم ہوتے ہیں۔ آج کل میاں بیوی میں نااتفاقی بات بات پر لڑائی جھگڑے ایک عام سی بات ہے اور جب دو ایسے افراد میں نااتفاقی پیدا ہو جائے جنہوں نے پوری زندگی ایک ساتھ رہنا ہے تو پھر ان کی زندگی بہت تلخ اور نتائج سنگین ہو جاتے ہیں یہ نااتفاقی نا صرف امن و سکون تباہی کرتی ہے بلکہ کبھی دین و آخرت کی بربادی کا سبب بھی بنتی ہے اور میاں بیوی کے علاوہ اس نااتفاقی کا اثر اولاد سمیت دیگر کئی رشتوں پر پڑتا ہے۔ اس نااتفاقی کا سبب سے بڑا سبب علم دین سے دوری اور ایک دوسرے کے حقوق کو نہ جاننا ہے۔ جب عورت شوہر کی عزت و عظمت کا خیال نہیں کرے گی تو لڑائی جھگڑے معمول بن جاتے ہیں لہذا عورت کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق جانے ان کا تحفظ کرے اور اس کی نافرمانی کا وبال اپنے سر نہ لے کہ اس میں دین و آخرت دونوں کا نقصان ہے۔

بیوی پر شوہر کا انتہائی اہم حق یہ ہے کہ بیوی اسکی ہر ایسے کام میں اطاعت کرے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔

حدیث پاک:خاوند کی فرماں بردار خاتون کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب ایک عورت پانچوں نمازیں ادا کرے ماہ رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا تم جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

شوہر اگر وظیفہ زوجیت کے لئے بیوی کو بلائے تو اس مطالبے کی تکمیل میں خصوصاً کوتاہی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس سے شوہر کی ناراضگی پر اسکے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا: جب شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور عورت آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو رہے تو رات بھر خدا کے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے

اور یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی کام کے لیے بلائیں تو وہ عورت اگر چولہے کے پاس بیٹھی ہو اس کو لازم ہے کہ وہ اٹھ کر شوہر کے پاس چلی آئے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:1163)

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورت چاہے کتنے بھی ضروری کام میں مشغول ہو مگر شوہر کے بلانے پر سب کاموں کو چھوڑ کر شوہر کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔

اور رسول اللہﷺ نے عورتوں کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنا دے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنا دے تو عورت کو اپنی شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مشکل سے مشکل اور دشوار کام کا بھی اگر شوہر حکم دے تو تب بھی عورت کو شوہر کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ہر حکم کی فرمانبرداری کے لیے اپنی طاقت بھر کمر بستہ رہنا چاہیے۔

اور خاوند کی نافرمانی کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اسکی وجہ سے نافرمان بیوی کی نماز تک قبول نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: دو آدمیوں کی نماز انکے سروں سے اوپر نہیں جاتی ایک اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آجائے اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اسکی فرمانبردار بن جائے۔(شعب الایمان، 6/417، حدیث: 8727)

ہاں یہ بات یاد رہے کہ خاوند کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اگر خاوند کسی ایسی بات کا حکم دے جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتو اس میں خاوند کی اطاعت ہرگز نہیں ہوگی جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔

کسی نے بہت خوب کہا کہ بےوقوف عورت شوہر کی نافرمانی کرکے اور اسے اپنا فرماں بردار بنا کر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہے یوں وہ غلام کی بیوی بن جاتی ہے جبکہ عقل مند عورت شوہر کو بادشاہ کی حیثیت دے کر ملکہ بن جاتی ہے۔

اللہ پاک تمام شادی شدہ اسلامی بہنوں کو خاوند کے حقوق سمجھ کر انہیں احسن انداز سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین