روزے
کی قبولیت کے بہت سے زرائع ہیں، اِن میں
پہلا تو یہ ہے کہ سب سے پہلے روزہ رکھ کر اس کے مُکمل تقاضے پورے کریں، آیئے پہلے اَصل روزہ کیا ہے؟ اِسکی حقیقت اور
تقاضے کیا ہیں؟ یہ جانتے ہیں:
روزے کی حقیقت وتقاضے :
حضرت
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں، روزے
کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے
رہنے کی بہت سی شرائط ہیں:
مثلاً
معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ
کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت
سننے، زبان کو فضول اور فِتنہ انگیز باتیں
کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی عزوجل
کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔(کشف المحجوب، صفحہ354/353)
جب
بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا تو ان
شاءاللہ اسکا روزہ ضرور مقبول
ہو گا، اِسی طرح معاذ اللہ بہت سے
نادان روزےمیں ٹائم پاس کرنے کے لیے اِحترامِ رمضان کو ایک طرف رکھ کر حرام وناجائز
کاموں کا سہارا لے کر وقت پاس کرتے ہیں اور یوں رمضان شریف میں شطرنج، تاش، لڈو، گانے باجے وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں، لہذا چاہئے کہ حرام وناجائز کاموں سے بچے۔(فیضانِ
رمضان، صفحہ94)
لہذا
جو اِن تمام ناجائز کاموں سے بچے تو اس کا روزہ مقبول ہوگا۔۔
اِسی
طرح گناہوں سے توبہ کرے، کیونکہ روزے میں
گناہ کرنے سے روزے کی روحانیت چلی جاتی ہے، جب بندہ گناہوں سے توبہ کرلے اور روزے کی حالت میں
کثرت سے نیکیاں کرے، اِستغفار کرے، فضول کاموں میں نہ پڑے، اسی طرح ماں باپ کی
نافرمانی اور لوگوں کی دِل آزاری سے بچتے ہوئے روزہ گزارے، اللہ تعالی
کی رِضا کے لئے ماں باپ کے دل میں خوشی داخل کرے، ماں باپ کے دل سے آپ کے لئے دُعا نکلے گی، تو انشاءاللہ
روزہ ضرور قبول ہوگا۔
یا اللہ عزوجل ہمیں صحیح طریقے سے روزہ
رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے روزوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔اٰمین