تمام
خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے جس نے اپنے بندوں پر اِحسان ِعظیم فرمایا کہ ان سے شیطان کے مَکرو
فریب کو دُور کیا، اس کی اُمید کو مَردُود
اور اس کے گمان کو ناکام کر دیا، روزوں کو اپنے دوستوں کے لئے قلعہ اور ڈھال بنایا۔
فرمانِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"روزہ
صبر ہے اور صبرآ دھا ایمان ہے۔"
ارشادِ
باری تعالی عزوجل ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ
اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔
ترجمہ کنز الایمان:تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک اُن کے لیے چھپا رکھی ہے،
صلہ اُن کے
کاموں کا۔"(پ21، السجدہ، آیت17)
اس
کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں کا عمل روزے رکھنا ہے، کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ
بِغَیْرِ حِسَابٍ۔(پارہ23،سورہ زمر، آیت نمبر10)
ترجمہ:صابروں کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی ۔۔۔۔لہذا روزہ دار کو اس کی جزا بے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی اور مناسب بھی ہے، کیونکہ روزہ اللہ عزوجل کے لئے ہے۔
فقہائے
ظاہر وہی پابندیاں روزے کی قبولیت کے لئے بیان کرتے ہیں جوعام غافل اور دنیا کی
طرف متوجّہ ہونے والے لوگوں کے لئے آسان ہوں، لیکن علمائے آخرت روزے کی صحت سے قبولیت مراد
لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ روزے
کا مقصد اللہ عزوجلکے اَخلاق سے متصف ہونا ہے اور وہ
بے نیازی ہے، نیز اس کا ایک مقصد شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ
وہ شہوات سے پاک ہیں۔
جب
اہلِ عقل اور اہلِ دل حضرات کے نزدیک روزے کا مقصد اور راز یہ ہے تو ایک کھانے کو
مؤخر کر کے دونوں کو شام کے وقت اکٹھا کر نے نیز دن بھر شہوات میں مُنہمک رہنے کا
فائدہ؟ اگر اس کا کوئی فائدہ ہے تو پھر
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمانِ عالی شان کا کیا مطلب ہو گا کہ "کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں، جنہیں اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ
حاصل نہیں ہوتا۔"
اس
پر بعض علماء نے فرمایا:"کتنے ہی روزے دار بےروزہ اور کتنے ہی بے روزہ ، روزہ دار ہوتے ہیں،
روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے، اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے
باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا
رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔"( لیکن یاد رہے کہ
روزہ رکھنا ہی لازم ہے یہ نہیں کہ دیگر نیکیاں کرے اور روزہ نہ رکھے اور روزہ دار
کہلائے ۔ )
گناہوں میں ملوث رہنے والے روزہ دار کی مثال:
روزے
کا مفہوم اور اس کی حِکمت سمجھنے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص کھانے پینے اور
جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں میں مُلوّث
ہونے کے باعث روزہ توڑ دے(یعنی ایسا گناہ کرے جس سے روزے کی روحانیت ختم ہو جائے
روزہ نہ ٹوٹے) تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح
کرے تو اس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا، لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو
جہالت کے سبب اس کی نماز اس پرلوٹا دی جائے گی، جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں لیکن
اَعضاء کونا پسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے، اس کی مثال اُس شخص کی سی ہے، جو اپنے اعضاء کو ایک ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجل قبول ہوگی، کیونکہ اس نے اَصل کو پختہ کیا، اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع
کیا وہ اس کی طرح ہے جو ہر عضو کو تین بار دھوتا ہے، اس نے اصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے۔
مروی
ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"بے
شک روزہ امانت ہے تو تم اپنی امانت کی حفاظت کرو۔"
یہی
وہ باطنی آداب ہیں جن کا جاننا ضروری ہے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں روزہ کی برکتیں
حاصل کرسکیں۔(بحوالہ احیاء العلوم)
اللہ عزّوجل ہمیں مقبول روزے رکھنے کی سعادت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم