روزہ کالغوی معنی ہے "اِمساک یعنی رُکنا"، شرعی اصطلاح میں روزے کے معنی ہے" صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک  کھانے پینے اور جماع سے رُکنے کا نام روزہ ہے"، جہاں روزے کے فقہی (ظاہری) احکام ہیں، وہیں اِس کے باطنی احکام بھی ہیں، جو شخص صبحِ صادق سے لے کر مغرب تک صرف کھانے پینے اور جماع سے رُکا رہے، فقہاء کے نزدیک اس نے روزے کو مکمل کر لیا، لیکن اہلِ باطن کے نزدیک یہ کافی نہیں۔

اِمام غزالی علیہ رحمۃ اپنی مایہ ناز تصنیف "احیاءُالعلوم" میں فرماتے ہیں:" خاصُ الخاص لوگوں کا روزہ دِل کو بُرے خیالات اور دنیوی فکروں بلکہ اللہ عزوجل کے سوا ہر چیز سے مکمل طور پر خالی کرنا ہے، اس صورت میں جب اللہ عزوجل کے سوا کوئی دوسری فکر یا دنیوی فکر آئے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(احیاء العلوم مترجم، ج 1، ص712، مکتبۃ المدینہ)

یقیناً جو اِس طرح روزہ رکھ لے، اس کے روزے کی قبولیت سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے، مزید فرماتے ہیں:"فقہائے ظاہر وہی پابندیاں بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف متوجّہ ہونے والے لوگوں کے لئے آسان ہوں، لیکن فقہائے آخرت روزے کی صحت سے قبولیت مُراد لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے۔"(ایضاً، ص 712)

حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطرہ لدَعْوَۃُٗ مَّا ترَدّ۔بیشک روزے دار کے لئے اِفطار کے وقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔"

(الترغیب والترہیب، ج 2، ص 53، حدیث 29، فیضان رمضان، ص 192)

الغرض جس طرح روزے میں اپنے آپ کو ظاہری عَوارضات سے بچانا ضروری ہے ، اِسی طرح باطنی عَوارضات سے بچانا بھی ضروری ہے، یہی وہ زرائع ہیں جو قبولیتِ روزہ کی دلیل ہیں، جیساکہ فیضان سنت، جلد اوّل، صفحہ نمبر 1057 پر ہے:"جھوٹ، غیبت، چُغلی، بد نگاہی، گالی دینا وغیرہ ویسے بھی ناجائزو حرام ہیں، روزے میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ میں کراہیت آتی ہے اور روزے کی نورانیت چلی جاتی ہے۔"

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں روزہ تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین