روزہ
ارکانِ اسلام میں سے ایک رُکن ہے، یہ بَدنی
عبادت ہے، روزے کے متعلق اللہ تبارک
تعالیٰ کا فرمان ہے:" کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی
جزا دوں گا۔"
اب یہ سُوال ہے کہ روزے کی قبولیت کے ذرائع
کونسے ہیں تو اِس میں سب سے پہلی چیز وہ یہ
ہے کہ اخلاص عبادت میں ضرور ہو، اخلاص سے
مراد یہ کہ جو کام بھی کیا جائے، خالصتاً اللہ
کی رضا کے لیے کیا جائے یعنی روزہ رکھنے میں مقصود ربّ تعالیٰ کی رِضا ہو، پھر چونکہ ہم روزے کی قبولیت پر بحث کر رہے ہیں
تو اِس میں یہ اَمر بھی پیش ِنظر رہے کہ
وقت پر روزہ بند کیا جائے اور وقت پر ہی افطار کیا جائے، پھر یہ دیکھا جائے گا کہ روزہ کس طرح گزارا، کیا مکمل ٹائم سو کر گزارا یا عبادت میں گزارا، ہاں! روزے میں حقوق اللہ عزوجل اور حقوق العباد کی بجا آوری کے
ساتھ جو نیندکی جاتی ہے، وہ بھی عبادت میں
ہی شمار ہوتی ہے، پھر ہمیں انبیائے کرام
اور ہمارے اَسلاف کے روزوں کے متعلق بھی
معلومات ہونی چاہئے کہ اِن نُفوسِ قُدسیہ نے کس طرح روزے رکھے، پھر دنیا کی محبت دِل سے
نکالنا بھی ضروری اَمر ہے کہ دنیا کی محبت غم بڑھاتی اور ہر گناہ کی جڑ ہے، جبکہ دنیا سے بے رغبتی ہر نیکی اور بھلائی کی بُنیاد
ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم
نے اِرشاد فرمایا:"یعنی دنیا سے بے رغبتی دل اور بدن کو آرام دیتی ہے۔"
اِس کے علاوہ خاموشی اختیار کرنے میں بھی عافیت
ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
ارشاد فرمایا:"مَنْ صَمَتَ نَجَاََ۔
جو چُپ رہا، اُس نے نجات پائی۔"
مزید آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا
فرمانِ عالیشان:" خاموشی پر قائم رہنا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔"
پھر
کم کھانا بھی روزے کی قبولیت کے ذرائع میں سے ایک زریعہ ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد
فرمایا:" کہ آدمی نے پیٹ سے زیادہ بُرا کوئی برتن نہیں بھرا ، اِبنِ آدم کو
چند لُقمے کافی ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا
کر دیں، اگر زیادہ کھانے کی ضرورت ہو تو تہائی
پیٹ کھانے کے لئے اور تہائی پانی کے لئے اور تہائی سانس کے لئے رکھے۔" لہذا زیادہ کھانے سے عبادت میں سُستی آتی ہے، پھر جس کام کے کرنے میں زیادہ مشقت ہو گی، اُتنی ہی اس کی قبولیت کی سند پُختہ ہو گی۔
حجّاج
بن یوسف ایک مرتبہ دورانِ سفر ِ حج مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک منزل پر اُترا
اور دوپہر کا کھانا تیار کروایا اور اپنے
محافظ سے کہا کہ کسی مہمان کو لے آؤ، محافظ
خیمے سے باہر نکلا تو اسے ایک اَعرابی لیٹا ہوا نظر آیا، اس نے اُسے جگایا اور کہا:" چلو! تمہیں اَمیر
حجاج نے بلایا ہے"، اعرابی آیا تو
حجاج نے کہا:" میری دعوت قبول کرو اور ہاتھ دھو کر میرے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ جاؤ"، اعرابی بولا:" معاف فرمائیے
آپ کی دعوت سے پہلے میں آپ سے بہتر ایک کریم کی دعوت قبول کر چکا ہوں، حجاج نے کہا: وہ کس کی؟ بولا:" اللہ عزوجل کی، جس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی، میں روزہ رکھ چُکا ہوں، حجاج نے کہا:" اِتنی سخت گرمی میں روزہ! ا
عرابی نے کہا: ہاں! قیامت کی سخت ترین گرمی سے بچنے کے لئے، حجاج نے کہا: آج کھانا کھا لو کل روزہ رکھ لینا، اَعرابی بولا: کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں
کہ میں کل زندہ ہوں گا؟ حجاج نے کہا:میں ایسا نہیں کر سکتا، اَ عرابی بولا: پھر آپ
مُجھ سے دیر سے آنےوالے کے بدلے میں اِس جلدی آنے والے کے بارے میں کیسے کہہ سکتے ہیں، جس پر آپ قادر نہیں۔بہر حال صبرو
برداشت بھی روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں۔