اِرشاد
باری تعالی ہے: ترجمہ:"
روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود ہی دوں گا۔"(حدیثِ قدسی)
حضرت مفتی احمد یار خان" تفسیرِنعیمی" میں
فرماتے ہیں:" روزہ صبر ہے، جس کی جزاء ربّ ہے۔" (تفسیر نعیمی)
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"
روزہ سِپَر ہے دوزخ سے، یعنی جس طرح سِپَر(
ڈھال) تلوار کے وار کو روکتی ہے، اسی طرح روزہ بھی جہنم کے آگ وعذاب سے روزہ دار
کا بچاؤ کرتا ہے۔"( انیس الواعظین)
ایک اور مقام پر فرمایا:" ہر شے کے لئے زکوۃ
ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ نِصف
صبر ہے۔"
حضرت
سیّدنا داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی
شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضانِ سنت)
مشکوٰۃ
شریف میں ہے:" کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں، جن کو روز وں سے سوائے بھوک اور پیاس سے کچھ
حاصل نہیں ہوتا۔"( مشکوۃ)
افسوس صد افسوس! ہمارے اکثر اسلامی بھائی اور
بہنیں روزہ کا لحاظ ہی نہیں کرتے، وہ صرف "بھوکے پیاسے" رہنے ہی کو بہت
بڑی بہادری تصور کرتے ہیں، روزہ رکھ کر بے
شمار ایسے افعال کر گزرتے ہیں، جو خلافِ
شرع ہوتے ہیں، اِس طرح فِقہی اعتبار سے
روزہ ہو تو جائے گا لیکن ایسا روزہ رکھنے
سے روحانی کیف و سُرور حاصل نہ ہوسکے گا۔
سرکارِ
مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ عالیشان ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس
کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کچھ حاجت نہیں۔"( بخاری)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:"صرف کھانے پینے
سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں، بلکہ روزہ
تو یہ ہے کہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے بچا جائے۔"(حاکم)
اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ جہاں روزے میں
کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، اسی طرح لڑائی
جھگڑا، غیبت، جھوٹ، بدزبانی وغیرہ گناہوں کو بھی چھوڑ دے اور اپنے اَعضائے
بدن کو بھی روزے کا پابند بنائے۔
دو جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں روزہ دار کو
جو نہیں رکھتا ہے روزہ وہ بڑا نادان ہے