پیاری میٹھی اسلامی بہنو!ہم روزہ تو رکھتی ہیں مگر اب یہ کیسے معلوم ہو کہ ہمارا روزہ ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوا بھی یا کہ نہیں ؟آیئے درج ذیل بیان کئے گئے مدنی پھولوں سے روزے کے قبول ہونے کے ذرائع سنتی ہیں:

داتا صاحب کا اِرشاد:حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سُننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی عزوجل کی مُخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(کشف الحجوب، ص353، 354)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فرمان مبارک سے ظاہر ہوتا ہے کہ" جب وہ حقیقتاً روزہ دار ہو گا" تو ان شاء اللہ عزوجل اس کا روزہ بھی مقبول ہو گا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فرمان پاک میں آنکھ، کان اور زبان کے روزے کے حوالے سے بیان کیا گیا، آئیے آنکھ، کان اور زبان کے روزے کی مزید اَہم تفصیل سنتی ہیں:

٭آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی آنکھ اُٹھے تو صرف اور صرف جائز اُمور ہی کی طرف اُٹھے، آنکھ سے قرآن پاک دیکھئے، مسجد دیکھئے، مَزاراتِ اولیاء کی زِیارت کیجئے، عُلمائے کِرام، مشائخِ عظام اور اللہ پاک کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے، تاجدارِ اہلِ سُنَّت حضور مفتی اعظم ہند سیّدنا محمد مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

کچھ ایسا کر دے میرے کردگار آنکھوں میں

ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں

اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں

کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

٭کان کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف جائز باتیں سُنیں، مثلاً کانوں سے تلاوت و نعت سنئے، سُنتوں بھرے بیانات سُنیں، اچھی بات سُنیں، ہر گز، ہرگز، ہرگز گانے بجانے اور موسیقی نہ سنئے، جُھوٹے چُٹکلے نہ سنئے، کسی کی غیبت نہ سنئے، کسی کی چُغلی نہ سنئے، جب دو آدمی چُھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ سنئے، پیارے میٹھے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:"جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سُنے، حالانکہ وہ اس بات کو نا پسند کرتے ہوں یا اُس بات کو چھپانا چاہتے ہوں تو قیامت کے دِن اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔"

(بخاری،ج4، ص423، حدیث 7042)

سُنوں نہ فُحش کلامی، نہ غیبت و چغلی

تیری پسند کی باتیں فقط سنُا یا ربّ

٭ زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان صرف اور صرف نیک و جائز باتوں کے لئے ہی حرکت کرے، مثلاً زبان سے تلاوتِ قرآن کیجئے، نعت شریف پڑھئے، درس دیجئے، سنتوں بھرا بیان سنئے، اچھی اور پیاری دینداری والی باتیں کیجئے، فضول بَک بَک سے بچئے، خبردار !گالی گلوچ، جُھوٹ، غیبت، چُغلی وغیرہ سے زَبان ناپاک نہ ہونے پائے۔

مری زبان پہ قفلِ مدینہ لگ جائے

فضول گوئی سے بچتا رہوں سدا یا ربّ

سابقہ گناہوں کا کفّارہ :"جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حُدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیئے، اُس سے بچا تو (جو کُچھ گُناہ) پہلے کر چکا ہے، اُس کا کفّارہ ہو گیا۔" (الحسان بترتیب صحیح ابن حبان)

"جس نے ایک دن کا روزہ اللہ عزوجل کی رِضا حاصل کرنے کے لئے رکھا، اللہ پاک اسے جہنم سے اِتنا دور کر دے گا، جتنا کہ ایک کوّا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے، یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مَر جائے۔"(ابو یعلی، ج1، ص383، حدیث 917)

مذکور بالا باتوں سے معلوم ہوا کہ اگر ہم اِن بیان کردہ فرامین کے مطابق روزہ رکھیں گے تو اللہ پاک کی رحمت سے اُمید ہے کہ روزے کی قبولیّت کاسامان ہو جائے گا۔ان شاء اللہ

(ماخوذ فیضان رمضان)


روزے کی قبولیت کےذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

معزز قارئین کرام : اللہ عزوجل کی عبادات اور نیکیاں تو پورا سال ہی کی جاتی ہیں مگر رمضان المبارک کو نیکیوں کا سیزن کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں ذوق عبادت اور ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر تمام اعمال چونکہ قبولیت پر ہی موقوف ہیں اس لیے روزے کی قبولیت کےحوالےسے چند مدنی پھول پیش ہیں۔

اخلاص:

روزہ ہو یا کوئی بھی نیکی اسکی قبولیت کے لیے اخلاص شرط اول ہے

امام غزالی علیہ رحمۃُ اللہِ علیہ منھاج العابدین میں تحریر فرماتے ہیں:" اخلاص مفقود ہونے کی صورت میں اعمال مردودہوجاتے ہیں اور انکا ثواب یاتو بالکل ختم یاکچھ نہ کچھ ضائع و برباد ہوجاتا ہے۔

تقوی :

تقوے سے اعمال درجہ قبولیت کو پہنچتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) ترجمہ : اللہ ڈرنے والوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔ (پارہ6 ، سورة المائدہ : 27 )

اس لیےروزہ دار کوچاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں عاجزی سے قبولیت کی دعا اور نامقبول ہونے سے ڈرتارہے۔

روزہ رکھ کر مخلوق خدا کے ساتھ احسان و بھلائی کرنا کہ اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔

طویل قیام و مناجات اور کثرت تلاوت ودیگر صالحات میں کوشش کرنا ۔

کہ یہ سب قبولیت کوبڑھانے والے اور قرب الہی والے اعمال ہیں ۔

روزہ رکھ کر سارا وقت سونے اور غفلت سے بچے، کہ اس طرح روزے کی نورانیت حاصل نہیں ہوتی۔

روزہ رکھ کر حقوق العباد میں کوتاہی نہ کرے۔

روزہ رکھ کر لڑائی جھگڑا کرنے والوں اور گھروالوں پر غصہ اتارنے بچوں کومارنے بڑوں کو ذرا سی غلطی پہ لتھاڑنے والوں کو اس فعل شنیع سے توبہ کرنی چاہیے۔

حدیث پاک میں ارشاد فرمایا: بہت سے روزے دار وہ ہیں کہ جنہیں روزوں سے پیاس کےسوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ! (مراة المناجیح ، جلد3 ، ص180، حدیث : 1917 )

مفتی صاحب مذکورہ بالاحدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ لوگ ہیں جوروزےمیں گالی گلوچ ،جھوٹ ،غیبت ،بہتان وغیرہ گناہوں سے نہیں بچتے کہ یہ لوگ بھوک پیاس کی تکلیف تو اٹھاتے ہیں مگر روزوں کاثواب حاصل نہیں کرتےاسی لیے روزے کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے کےساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے روزہ رکھ کر کرکٹ ،موبائل گیمزکھیلنا،فلمیں ڈرامےدیکھنا،ڈائجسٹ پڑھنا روزے کی قبولیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے لہذابالعموم ہروقت اور بالخصوص روزےکی حالت میں ان افعال سےبچنانہایت ضروری ہے۔

فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ علیہ وَسَلَّم :

صرف کھانے پینے سےبازرہنےکانام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہےکہ لغو اور بےہودہ باتوں سےبچا جائے۔ (المستدرک ، ج2 ، ص67 ، حدیث:1611 )

فرمان سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ:

" معدے کوکھانےپینے سےروکنا ،آنکھ کو بدنگاہی ،کان کوغیبت، زبان کوفضول اورفتنہ انگیزباتوں اورجسم کو حکم الہی کی مخالفت سے روکےرکھناروزہ ہے جب بندہ ان تمام شرائط کی پیروی کرےگا تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضان رمضان)

فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ عَلیہ وَسَلَّم :

" جوبری بات کہنااور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ پاک کوکچھ حا جت نہیں ۔ (البخاری ،ج1 ، ص628 ، حدیث : 1903 )

یاد رہےایسےشخص کافرض اداہوجائےگا مگر قبول نہ ہوگا۔

صبح صادق سےغروب آفتاب تک نیت کےساتھ کھانے پینے اور دیگرشرائط جوازبجالانے سے روزہ ادا ہوجائےگا مگر شرائط قبول میں یہ باتیں چھوڑنا ہے جو روزہ کااصل مقصود ہے

روزے کی حکایات فضائل واحکام اور مزید معلومات حاصل کرنےکےلیے امیراہل سنت کی کتاب فیضان رمضان کا مطالعہ فرمائیے۔ 


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ بہت قدیم عبادت ہے،  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں، اگرچہ گزشتہ اُمتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے، رمضان کے روزے 10شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے۔ (در مختار، کتاب الصوم، 3/383)

شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری (جماع) سے بچا جائے۔(خازن، البقرہ، تحت الآیۃ، 183، 1/119)

روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، تاہم روزے کے کچھ باطنی آدب بھی ہیں، جن کا جاننا ضروری ہے تا کہ ہم روزے کی برکتیں حاصل کر سکیں اور یہ مقبول بھی ہوں، چنانچہ روزے کے تین درجےہیں:

(1)عوام کا روزہ (2)خواس کا روزہ (3) اخص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ :

روزہ کے لغوی معنی "رکنا"لہذا شریعت کی اصطلاح میں صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہ عام لوگوں کا روزہ ہے۔

خواص کا روزہ:

کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکنا، خو اص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔

اخص الخواص کا روزہ:

اپنے آپ کو تمام ا مور سے روک کر صرف اور صرف اللہ عزوجل کی طرف متوجّہ ہونا یہ اخص الخواص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔(بہار شریعت، ج 1، ص966، ملخصاً)

تفسیر صراط اجنان میں ہے کہ روزے کامقصد تقوی و پرہیز گاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو پانا وہ بنیادی چیز ہے ، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، ج 1، ص290)

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (کشف المحجوب، ص353,354)

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:" روزہ ایک امانت ہے اور ہر ایک کو اپنی امانت کی حفاظت کرنی چاہئے۔" امانت کی حفاظت اعضاء کو گناہوں سے بچانے سے ہوتی ہے۔ (قوت القلوب، ج1، ص369)

حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تو اسی وقت نصیب ہوں گی، جب ہم تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے، ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:"بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(ابن ماجہ، ج2، ص320، حدیث 1690)

اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عزوجل فیضان رمضان سے ہر مسلمان کو مالا مال فرما، ہمیں ماہِ رمضان کی قدر و منزلت نصیب کر اور اسکی بے ادبی سے بچا، یا اللہ پاک ہمیں کھانے پینے وغیرہ سے رُکے رہنےکے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر اعضائے بدن کو بھی گناہوں سے بچا کر حقیقی معنوں میں روزے کا پا بند بنا۔(اٰمین


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ۔

ترجمہ کنز الایمان:"اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ۔" (پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت 183)

فقہی طور پر صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کو" روزہ" کہتے ہیں۔(فیضانِ رمضان، ص90)

اِمام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"فقہائے ظاہر وہی پابند یاں بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف متوجّہ ہونے والوں کیلئے آسان ہوں، لیکن علمائے آخرت روزے کی صحت (یعنی صحیح ہونے) سے قبولیت مراد لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے، روزے کا ایک مقصد شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ وہ شہوات سے پاک ہیں۔" (احیا ءالعلوم، جلد01، ص 717، 718 )

حدیث میں فرمایا:"صرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اوربیہودہ باتوں سے بچا جائے۔"(فیضانِ رمضان، ص92)

اِرشاد فرمایا:"بہت سے روزہ دارایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔"(فیضانِ رمضان، ص98)

معلوم ہوا کہ روزے کی قبولیت کا دارومدار فقط اِمتناع ثلثہ( تین چیزوں یعنی کھانے، پینے اور جماع سے رکنے)پر نہیں، بلکہ ان اُمور سے رُکنے کے ساتھ ساتھ مزید بھی کچھ ایسے کام ہیں جو رحمتِ الٰہی سے روزے کی قبولیت کا سبب بنتے ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت "رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں، مثلاً

(1)معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا۔

(2)آنکھ کو بدنگا ہی سے روکے رکھنا۔

(3)کان کو غیبت سننے۔۔

(4)زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور

(5)جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا" روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضانِ رمضان، ص91)

حضور داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ کی تحریر سے واضح ہوا کہ کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا تو روزے کی حقیقت کو پانے کی صرف ایک شرط ہے، روزے کی نورانیت، حقیقت اور قبولیت پانے کیلئےاعضاءکو گناہوں سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔

گناہوں میں ملوّث رہنے والے روزہ دار کی مثال سمجھاتے ہوئے اِمام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"جو شخص کھانے(پینے) اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں میں ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تو وہ اس شخص کی طرح ہے "جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا، لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی"، جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں لیکن ا عضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ قبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس کی طرح ہے جوہر عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے"۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص719)

اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(اٰمین)


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ اگرچہ ظاہری شرط کے ساتھ ہے کہ روزہ دار قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رہے ، تاہم روزے کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کا جاننا ضروری ہے،  تا کہ حقیقی معنوں میں ہم روزہ کی برکتیں حاصل کر سکیں اور اسے قبولیت کے درجے میں پہنچانے میں کامیاب ہوسکیں، چنانچہ روزہ دار کے تین درجے ہیں:(1) عوام کا روزہ(2) خواص کا روزہ(3) اخص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ :

روزہ کے معنی "رکنے" کے ہیں، تو کھانے پینے اور جماع سے صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب تک رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہی عوام کا روزہ ہے۔

خواص کا روزہ:

مذکورہ بالا ہے احکام بجا لاتے ہوئے اپنے تمام اعضاء کو برائیوں سے بچانا خو اص کا روزہ ہے ۔

اخص الخواص کا روزہ:

اپنی تمام توجّہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی جانب کرنا اخص الخواص کا روزہ ہے اور یہی قبولیت کا راز ہے۔( فیضان رمضان)

الہی خو ب دیدے شوق قرآں کی تلاوت کا

شرف دے گُنبدِ خضرا کے سائے میں شہادت کا

اے عاشقانِ رسول!آپ نے دیکھا کہ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے کتنے فضائل ہیں، اِس کے

علاوہ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے فضائل پر مشتمل اور بھی بہت سی روایات ہیں، اللہ کریم ہم سب کو قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا خوب جزبہ عطا فرمائے اور علمِ دین کی خوب تشہیر کرنے کا بہترین اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تلاوت کی توفیق دیدے الہی

گناہوں کی ہو دور دل سے سیاہی