اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ۔
ترجمہ کنز الایمان:"اے ایمان والوتم پر
روزے فرض کیے گئے ۔" (پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت 183)
فقہی
طور پر صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک
قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے
کو" روزہ" کہتے ہیں۔(فیضانِ رمضان، ص90)
اِمام
غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں:"فقہائے ظاہر وہی پابند یاں بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف
متوجّہ ہونے والوں کیلئے آسان ہوں، لیکن
علمائے آخرت روزے کی صحت (یعنی صحیح ہونے) سے قبولیت مراد لیتے ہیں اور قبولیت سے
مراد مقصود تک رسائی ہے، روزے کا ایک مقصد
شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ وہ شہوات سے پاک ہیں۔" (احیا ءالعلوم، جلد01، ص 717، 718 )
حدیث
میں فرمایا:"صرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ
ہے کہ لغو اوربیہودہ باتوں سے بچا جائے۔"(فیضانِ رمضان، ص92)
اِرشاد
فرمایا:"بہت سے روزہ دارایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے
سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔"(فیضانِ رمضان، ص98)
معلوم
ہوا کہ روزے کی قبولیت کا دارومدار فقط اِمتناع ثلثہ( تین چیزوں یعنی کھانے، پینے اور جماع سے رکنے)پر نہیں، بلکہ ان اُمور سے رُکنے کے ساتھ ساتھ مزید بھی
کچھ ایسے کام ہیں جو رحمتِ الٰہی سے روزے کی قبولیت کا سبب بنتے ہیں۔
حضرت
داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں:"روزے کی حقیقت "رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں،
مثلاً
(1)معدے
کو کھانے پینے سے روکے رکھنا۔
(2)آنکھ
کو بدنگا ہی سے روکے رکھنا۔
(3)کان
کو غیبت سننے۔۔
(4)زبان
کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور
(5)جسم
کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا" روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضانِ رمضان، ص91)
حضور
داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ کی تحریر
سے واضح ہوا کہ کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا تو روزے کی حقیقت کو پانے کی صرف ایک
شرط ہے، روزے کی نورانیت، حقیقت اور قبولیت
پانے کیلئےاعضاءکو گناہوں سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔
گناہوں
میں ملوّث رہنے والے روزہ دار کی مثال
سمجھاتے ہوئے اِمام غزالی علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں:"جو شخص کھانے(پینے) اور جماع سے تو رُکا
رہے، لیکن گناہوں میں ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تو وہ اس شخص کی
طرح ہے "جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا، لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو
جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی
جائے گی"، جو کھانے کے ذریعے روزہ
دار نہیں لیکن ا عضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک
بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ قبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل کو پُختہ
کیا، اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس کی طرح ہے جوہر عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے"۔(احیاء
العلوم، جلد 1، ص719)
اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں روزہ
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(اٰمین)