معزز قارئین کرام : اللہ عزوجل
کی عبادات اور نیکیاں تو پورا سال ہی کی جاتی ہیں مگر رمضان المبارک کو نیکیوں کا
سیزن کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں ذوق عبادت اور ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر
تمام اعمال چونکہ قبولیت پر ہی موقوف ہیں اس لیے روزے کی قبولیت کےحوالےسے چند مدنی پھول پیش ہیں۔
اخلاص:
روزہ ہو یا کوئی بھی نیکی اسکی قبولیت کے
لیے اخلاص شرط اول ہے
امام غزالی علیہ رحمۃُ اللہِ علیہ منھاج العابدین میں تحریر فرماتے ہیں:"
اخلاص
مفقود ہونے کی صورت میں اعمال مردودہوجاتے ہیں اور انکا ثواب یاتو بالکل ختم یاکچھ
نہ کچھ ضائع و برباد ہوجاتا ہے۔
تقوی :
تقوے سے اعمال درجہ قبولیت کو پہنچتے ہیں
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ
اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) ترجمہ : اللہ ڈرنے
والوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔ (پارہ6 ، سورة المائدہ : 27 )
اس لیےروزہ دار کوچاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں عاجزی سے قبولیت کی دعا اور
نامقبول ہونے سے ڈرتارہے۔
روزہ رکھ کر مخلوق خدا کے ساتھ احسان و
بھلائی کرنا کہ اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔
طویل قیام و مناجات اور کثرت تلاوت ودیگر
صالحات میں کوشش کرنا ۔
کہ یہ سب قبولیت کوبڑھانے والے اور قرب
الہی والے اعمال ہیں ۔
روزہ رکھ کر سارا وقت سونے اور غفلت سے بچے،
کہ اس طرح روزے کی نورانیت حاصل نہیں ہوتی۔
روزہ رکھ کر حقوق العباد میں کوتاہی نہ کرے۔
روزہ رکھ کر لڑائی جھگڑا کرنے والوں اور
گھروالوں پر غصہ اتارنے بچوں کومارنے بڑوں کو ذرا سی غلطی پہ لتھاڑنے والوں کو اس
فعل شنیع سے توبہ کرنی چاہیے۔
حدیث پاک میں ارشاد فرمایا: بہت سے روزے
دار وہ ہیں کہ جنہیں روزوں سے پیاس کےسوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ! (مراة المناجیح ، جلد3
، ص180، حدیث : 1917 )
مفتی صاحب مذکورہ بالاحدیث کی شرح کرتے
ہوئے فرماتے ہیں: کہ یہ وہ لوگ ہیں جوروزےمیں گالی گلوچ ،جھوٹ ،غیبت ،بہتان وغیرہ
گناہوں سے نہیں بچتے کہ یہ لوگ بھوک پیاس کی تکلیف تو اٹھاتے ہیں مگر روزوں کاثواب
حاصل نہیں کرتےاسی لیے روزے کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے کےساتھ ساتھ
جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے روزہ رکھ کر کرکٹ ،موبائل گیمزکھیلنا،فلمیں
ڈرامےدیکھنا،ڈائجسٹ پڑھنا روزے کی قبولیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے لہذابالعموم ہروقت
اور بالخصوص روزےکی حالت میں ان افعال سےبچنانہایت ضروری ہے۔
فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ علیہ وَسَلَّم :
صرف کھانے پینے سےبازرہنےکانام روزہ نہیں
بلکہ روزہ تو یہ ہےکہ لغو اور بےہودہ باتوں سےبچا جائے۔ (المستدرک ، ج2 ، ص67 ، حدیث:1611
)
فرمان سیدنا علی ہجویری رحمۃ
اللہ علیہ:
" معدے کوکھانےپینے سےروکنا
،آنکھ کو بدنگاہی ،کان کوغیبت، زبان کوفضول اورفتنہ انگیزباتوں اورجسم کو حکم الہی
کی مخالفت سے روکےرکھناروزہ ہے جب بندہ ان تمام شرائط کی پیروی کرےگا تب وہ حقیقتاً
روزہ دار ہوگا۔ (فیضان رمضان)
فرمان خاتم النبیین صَلَّى اللہ عَلیہ وَسَلَّم :
" جوبری بات کہنااور
اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ پاک کوکچھ حا جت نہیں ۔ (البخاری ،ج1 ، ص628 ، حدیث
: 1903 )
یاد رہےایسےشخص کافرض اداہوجائےگا مگر قبول
نہ ہوگا۔
صبح
صادق سےغروب آفتاب تک نیت کےساتھ کھانے پینے اور دیگرشرائط جوازبجالانے سے روزہ
ادا ہوجائےگا مگر شرائط قبول میں یہ باتیں چھوڑنا ہے جو روزہ کااصل مقصود ہے
روزے کی حکایات فضائل واحکام اور مزید
معلومات حاصل کرنےکےلیے امیراہل سنت کی کتاب فیضان رمضان کا مطالعہ فرمائیے۔