توحیدو رسالت کا اِقرار  کرنے اور تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض قرار دی گئی ہے، اِسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد و عورت)عاقل و بالغ پر فرض ہیں۔

روزے کا مقصد:

روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق(practice) ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس(نفس پر قابو)اور حرام سے بچنے پر قُوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔

رمضان" رَمض" سے بنا، بمعنی گرمی یا گرم، چونکہ بھٹی گندے لوہے کو صاف کرتی ہےاو ر صاف لوہے کو پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو پہننے کے لائق بنا دیتی ہے، اِسی طرح روزہ گناہ گاروں کے گناہ معاف کراتا ہے، نیکو کار کے درجات بڑھاتا ہے، نیز روزہ اللہ کی رحمت، محبت، ضمان، اَمان اور نُور لے کر آتا ہے !

حق یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں آسمانوں کے دروازے بھی کھلتے ہیں، جن سے اللہ کی خاص رحمتیں زمین پر اُترتی ہیں اور جنتوں کے دروازے بھی، جس کی وجہ سے جنت والے حُوروغلمان کو خبر ہو جاتی ہے کہ دنیا میں رمضان آگیا اور وہ روزہ داروں کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

لیکن یاد رہے! کہ یہ فضائل و بَرَکات اُسی صورت میں مل سکتے ہیں، جبکہ روزہ کو اُس کے حق کے ساتھ رکھا جائے ، صرف کھانے پینے سے رُک جانے کا نام روزہ نہیں بلکہ

داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں، مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فِتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(کشف المحجوب، ص353,354)

روزے کی قبولیت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بُری بات کہنے سے بچاجائے، جیسا کہ

اللہ عزوجل کو کچھ حاجت نہیں:

نبیوں کے سلطان، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رحمٰن صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ عزوجل کو اس کی کُچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔"( بخاری، ج1، ص668 ، حدیث1903)

اب سوچئے! جو شخص پاک اور حلال کھانا پینا تو چھوڑ دے، لیکن حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام بدستُور جاری رکھے تو وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟؟؟

اللہ پاک عزوجل! ہمیں روزوں کو اُس کے مقصد و حَقْ کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بارگاہِ بے کس پناہ میں قبول فرمائے۔اٰمین

دو جہاں کی نعمتیں مِلتی ہیں، روزہ دار کو

جو نہیں رکھتا ہے روزہ ، وہ بڑا نادان ہے


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

روزہ ایسی  اہم عبادت ہے، جسے اللہ عزوجل نے تقوٰی کے حصول کے لئے پچھلی اُمتوں پر فرض کیا تھا، سورہ بقرہ آیت 831، 184 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے، گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔"

مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ تفسیر صراط الجنان جلد 1 صفحہ 290 پر ہے:آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنے نفس پر قابو پانے کی مشق(Practice) ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس(نفس پر قابو)اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(فیضان رمضان مرمم، ص 73)

حدیث پاک ہے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں، جن میں سے ایک باب الرّیان ہے، جس میں صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔" (مراۃ المناجیح، ص 146، حدیث 1861)

حدیث پاک ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ عزوجل کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔"( بخاری شریف، ج1، ص268، حدیث1093)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضان رمضان، ص91)

حدیث پاک کا حصّہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :"جو ایمان اور اخلاص کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔"(مراۃ المناجیح، جلد 3، ص 146)

حاصلِ بحث:

آیتِ مبارکہ، احادیثِ مبارکہ اور حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان ، اخلاص اور تقوی اختیار کرنا روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں۔

مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں:"حدیث سے معلوم ہوا کہ ہندوؤں کے صرف (روزہ) اور کافروں کے وہی روزوں کا ثواب نہیں کہ وہاں ایمان نہیں اور جو شخص بیماری سے علاج کے لئےروزہ رکھے نہ کہ طلبِ ثواب کے لئے تو کوئی ثواب نہیں کہ وہاں احتساب نہیں۔" (مراۃ المناجیح، جلد 3، ص 146)

آیت مبارکہ میں روزے کا مقصد وہی تقوٰی بتایا گیا، اگرمقصد رکھ کر حاصل کرنے کی سعی ( کوشش) کی جائے تو قبولیت کی قوی امید ہے۔ 


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو اچھے اعمال کرے گا،  اُسے جنت ملے گی، اچھے اعمال میں ایک عمل روزہ بھی ہے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ پارہ 30، سورہ البیّنہ کی آیت نمبر 7اور8میں اِرشاد فرماتاہے:

ترجمہ کنز الایمان:"بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں، ان کا صلہ ان کے ربّ کے پاس، بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ اس کے لئے ہے جو اپنے ربّ سے ڈرے ۔"

اِمام اَجل حضرت سیّدنا شیخ ابو طالب مکّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب "قُوتُ القلوب" میں فرماتے ہیں:"روزہ آگ سے ڈھال ہے اور نیک لوگوں کے دَرَجات تک رسائی کا سبب ہے، جب روزہ دار روزے پر صبر کرتا ہے تو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے، مگر جب وہ اپنے اعضاء کو گناہوں میں خوب مگن کر دے تو اس کی مثال اس شخص جیسی ہےجوبار بار توبہ کر کے توڑ دیتا ہے، پس اُس کی توبہ توبہ نصوح نہیں ہےاور نہ ہی اس کا یہ روزہ صحیح ہے، کیا آپ کی نظروں سے رسولِ بے مثال صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانِ عالیشان نہیں گُزرا کہ " روزہ آگ کے سامنے ایک ڈھال ہے، جب تک کہ اسے جھوٹ یا غیبت کے زریعے پھاڑا نہ جائے۔"

اِس فرمانِ عالیشان کو پڑھ کر پتہ چلا کہ اگر روزہ کو جھوٹ، غیبت اور اپنے اَعضاء کو گناہوں سے بچا کر گزارا جائے تو وہ قبولیت کا زریعہ بن سکتے ہیں۔

واسِطہ رمضان کا یا ربّ ہمیں تو بخش دے

نیکیوں کا اپنے پلّے کچھ نہیں سامان ہے

(وسائلِ بخشش، ص 704)


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

اللہ تعالی فرماتا ہے! یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ۔

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے کہ ان پر فرض کئے گئے جو تم سے پہلے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو تمام جنتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور سارا مہینہ ایک دروازہ بھی بند نہیں ہوتا اور اللہ تعالی ایک آواز دینے والے کو یہ حکم دیتا ہے کہ یہ آواز دو،

اے بھلائی کے طلبگارو! آگے بڑھو، اے برائی کے طلبگارو! پیچھے ہٹو، پھر فرماتا ہے، ہے کوئی بخشش مانگنے والا تا کہ اسے بخش دیا جائے، کوئی مانگنے والا ہے؟ تاکہ جو مانگا جائے اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، صبح طلوع ہونے تک اسی طرح آوازیں دی جاتی ہیں، افطار کے وقت ہر شب اللہ تعالی دوزخ سے دس لاکھ گناہ گاروں کو آزاد فرماتا ہے، جن پر عذاب لازم ہو چکا تھا ۔( مکاشفۃ القلوب، ص686)

روزے کی حقیقت:

روزے کی حقیقت امساک ہے، یعنی اپنی خواہشاتِ نفس کو روکنا اور قابو میں رکھنا، چنانچہ حضرت علی بن عثمان جلابی نے ایک مرتبہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا،(یا رسول اللہ اَوْھِنِی) یعنی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اِحْبَسْ حَوَاسَکَ)یعنی اپنی خواسِ خمسہ کو قابو میں رکھ! کیونکہ انسان سے تمام نیکیوں اور برائیوں کا ظہور انہی پانچ حواس کے ذریعے سے ہوتا ہے، آنکھ جو دیکھنے کا آلہ ہے، کان جو سننے کا آلہ ہے، نا ک جو سونگھنے کاآلہ ہے، منہ جو ذائقے کا آلہ ہے اور پورا جسم جو چھونے کا آلہ ہے، یہ پانچوں فرمانبرداری اور معصیت کے مشترک اور یکساں آلات ہیں، آدمی کے نیک اور بد اور اللہ عزوجل کے فرمانبردار اور نافرمان ہونے کا سارا انحصار انہیں پانچ آلات کے استعمال پر ہے، ایک طرف علم اور عقل اور روح کو دوسری طرف نفس اور ہوا کو اور ان آلات پر یکساں تصرّف کا اختیار اور موقع حاصل ہے۔

اب یہ آدمی کے اپنے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان آلات کو اپنے قابو میں رکھنے اور علم وعقل اور روح کے تصرف میں دینے کی کوشش کرتا ہے یا انہیں نفس اور ہوا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا ہے، ان کو قابو میں رکھنے کے لئے روزہ سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ کوئی نہیں۔

جو شخص ماہِ رمضان میں عبادت پر استقامت اختیار کرتا ہے، اللہ عزوجل اسے ہررکعت پر نور کا ایک ایک شہر انعام دے گا، اس ماہ کا اوّل رحمت، ا وسط مغفرت اور آخری عشرہ دوزخ سے آزادی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ماہِ رمضان کی پہلی رات آسمان، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری شب تک کھلے رہتے ہیں، جو ایماندار اس کی کسی بھی شب میں عبادت کرتا ہے، اس کے ہر سجدہ کے عوض ایک ہزار سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جنت میں سُرخ یاقوت سے محل تیار کیا جاتا ہے۔

حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں:" کہ اگر اللہ عزوجل نے اُمّتِ محمدیہ کو عذاب سے دوچار کرنا ہوتا، تو اسے ماہِ رمضان اور سورۃ اخلاص کبھی عطا نہ فرماتا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلّق رہتا ہے ،جب تک صدقہ فطر ادا نہ کرے ۔ (تاریخ بغداد )


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

سبحان اللہ عزوجل رمضان کی تو کیا ہی بات ہے، ماہِ رمضان جب آتا ہے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بھی بہت سے اعمال ہیں اورسب کی الگ الگ فضیلتیں ہیں، درود پاک کی، ذکرُ اللہ عزوجل کی، اِستغفار کی، لیکن جو رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا، اس میں عبادت کرنا، اس کا بدلہ اللہ عزوجل خود عطا کرے گا، بہرحال ہمارا موضوع روزے کی قبولیت کے جو ذریعے ہیں کہ کن چیزوں سے ہمارا روزہ قبول ہوگا، وہ میں کچھ عرض کرتی ہوں، اگر غلطی ہو گئی تو معذرت ، بہرحال :

روزے کی قبولیت کا ایک ذریعہ خود کو غیبت سے بچانا بھی ہے ، کیونکہ تو ہم غیبت سے خود کو بچائیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل روزہ قبول ہوگا۔

جب آپ روزہ دار ہوں تو آپ کو چاہئے کہ صرف غیبت سے نہیں، بلکہ جھوٹ، چغلی، بدنگاہی، ہر قسم کے گناہوں سے خود کو روکنا ہی روزے کی قبولیت کا ذریعہ بنے گی، ایسا نہ ہو کہ سارا دن روزہ دار ہوں پھر رات کو معاذ اللہ عزوجلگناہ بھری فلمیں، ڈرامے، گانے سنیں تو روزے کا پھر کیا فائدہ ہوا ، اخلاص کے ساتھ روزہ رکھیں گے تو قبول بھی ہو گا، ہم دل سے روزہ رکھیں گے، اللہ عزوجلکی رضا کے لئے روزہ رکھیں گے تو وہ روزہ کیوں قبول نہ ہوگا، کیونکہ دل سے اور اخلاص کے ساتھ جو عمل ہم کریں گے تو وہ ضرور قبول ہوتا ہے۔

اسی طرح روزے میں ہر وقت اللہ عزوجل کی عبادت کریں، قرآن مجید کی تلاوت کریں، ذکرِ الہی کریں، دُرود پاک پڑھیں، اِستغفار کریں، نوافل ادا کریں، خود کو فضول گفتگو سے بچائیں، اپنے نیک اعمال کا جائزہ لیں، یہ سب اعمال سارا دن کریں گے، یہ سب روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں، خوب صدقہ کریں اس کا تو ثواب اتنا ہوگا کہ میں کیا بتاؤں۔

رمضان کے مہینے میں خوب نیک اعمال کریں، بے پردگی سے بچیں، جس طرح روزے میں کچھ نہیں کھاتے اسی طرح آنکھوں کو بھی بدنگاہی سے بچائیں، منہ کو غیبت کرنے سے بچائیں، کانوں کو گانوں باجوں کے سننے سے بچائیں، نیز ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ سے خود کو بچانا روزے کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں رمضان کا احترام کرنے، اس میں خوب عبادتیں، نوافل، استغفار کرنے، گناہوں سے بچنے، اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ، ہماری نمازوں، روزوں، تلاوتوں سارے اعمال کو قبول فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

روزہ:

صوم کے معنی رُک جانے کے ہیں، خواہ کسی بھی چیز سے رک جانا" صوم" کہلاتا ہے اور شریعت کی اصطلاح میں صوم یعنی روزہ سے مراد صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت خالص اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر کھانے پینے، خواہشاتِ نفسانی اور دیگر ممنوع باتوں سے رک جانا ہے ۔

روزے کی اہمیت:

روزہ اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

ترجمہ:اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے اُمّتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے متعلق فرمایا:"روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے تو خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو جائے گا۔"( صحیح بخاری شریف)

رمضان کے روزے فرض ہیں، اِس کے علاوہ نفل روزے رکھنا اَجرِ عظیم ہے، یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ روزہ ایک اہم ترین عبادت ہے، پر یہ معلوم نہیں ہوا کہ روزہ قبول ہوا یا نہیں، اس کو جاننے کے لیے چند روزے کی قبولیت کے ذرائع ملاحظہ فرماتے ہیں:

نیت کرنا:

روزے میں نیت فرض عمل ہے، جس طرح اور عبادتوں میں بتایا گیا ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، اسی طرح یہاں روزے میں بھی وہی مراد ہے، البتہ زبان سے کہہ لینا اچھا ہے، رات کو نیت کرے کہ کل روزہ رکھوں گا یا دن میں نیت کی تو یہ کہنا ہوگا کہ "میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں"، ہر نیک کام میں نیت کرنا افضل ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:ترجمہ:" مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔"

اگر اچھی نیت اور خلوص کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو ثواب بھی اسی حساب سے ملے گا ۔

فرض کام انجام دیں:

کاموں میں فرض نماز اور زکوٰۃ ہے، نماز دین کا اہم رکن ہے، نماز کی پابندی اور ٹائم کا خاص خیال رکھا جائے، اگر روزہ رکھا اور نماز نہ پڑھی تو روزہ نہ قبول ہونے کا اندیشہ ہے اور گناہ گار ہوں گے۔

روزے کا تقاضہ:

روزے کا مقصد صرف بھوکے پیاسے رہ کر گزار لینا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد عظیم ہے اور اس کو پانے کے لئے کچھ تقاضے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ:جو انسان روزے کی حالت میں جھوٹی باتوں اور گناہ کے کاموں سے باز نہیں آتا، اللہ تعالی کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔

روزے کے دوران جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی دینا، بیہودہ بات کہنا، کسی کو تکلیف دینا، یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں، روزے میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ بھی مکروہ ہوتا ہے، لہذا ان باتوں سے اِجتناب کیا جائے، ان کا گناہ روزے میں مزید بڑھ جاتا ہے۔

روزہ توڑنے والی چیزوں سے احتیاط کریں:

کھانے یا پینے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو اور اگر روزہدار ہونایاد نہ رہا اور بھول کر کھا لیا، پانی پی لیا یا جماع کر لیا تو روزہ نہ گیا ۔

روزہ رکھ کر ہمیں ان تمام اقوال و افعال سے گریز کرنا چاہئے، جس کی ممانعت اسلام میں آئی ہے، اور ہر وہ کام جس کا حکم اسلام نے دیا ہے وہ بجا لانا چاہئے، ہمیں چاہئے ہم زبان سے جھوٹ نہ بولیں، آنکھوں سے بُرا نہ دیکھیں، ہاتھوں سے وہ کام نہ کریں جو گناہ کا سبب ہوں، کان سے حرام نہ سنیں اور دل میں کسی کے بارے میں برا خیال نہ کریں اور خدمتِ خلق کا جذبہ رکھیں اور اشرف المخلوقات ہونے کا درس دیں تو یقیناً اللہ تعالی ربِّ کریم، غفور الرحیم اپنی بارگاہِ عالیشان میں ہم گناہگاروں کا روزہ قبول فرمائے گا ۔ اٰمین

(قانون شریعت ، ص169/182)


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

روزہ یعنی صوم  کسی چیز سے رُکنے اور چھوڑنے کو کہتے ہیں اور روزہ دار کو صائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے اور ہمبستری سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے، روزے کے ضمن میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے ، یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ! تم ہر روز ے رکھنا فرض کیا گیا ہے کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔"(سورۃ بقرہ آیت نمبر183)

روزہ بڑی پرانی عبادت ہے، چنانچہ تفسیر خازن میں ہے، حضرت آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے انبیاء کرام تشریف لائے اور ان کی امتیں آئیں ہیں ان سب پر روزے فرض کئے گئے ہیں، کوئی ایسی نہ گزری جس پر روزے فرض نہ کیے گئے ہوں۔

روزہ دراصل نام ہی اپنے آپ کو روکنے کا ہے اور وہ ہے گناہوں سے روکنا، وہ اس طرح روکے کہ اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچائے ۔

زبان کو اس طرح روکے کہ زبان سے برا نہ بولے، نہ فحش گو ئی کرے نہ کسی کی دل آزاری کرے اور آنکھوں کو اس طرح روکے کہ آنکھ کسی برائی کی طرف نظر نہ کرے، فلمیں ڈرامے نہ دیکھیں، کانوں کو اس طرح روکے کہ برائی نہ سنے، فحش کلام، گانے باجے نہ سنے، کسی کی غیبت نہ سنے، ہاتھ کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، نہ کسی کی حق تلفی کرے، کسی پر ظلم نہ کرے، ہاتھ کو گناہوں والے کام میں استعمال نہ کرے، پاؤں کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ پاؤں سے برائیوں کی جگہ نہ جائے، پاؤں سے کسی کو تکلیف نہ دے، گناہوں کی طرف قدم نہ بڑھائے۔

اس حوالے سے چند احادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:

1۔ سرکار ِمدینہ، راحتِ قلب وسینہ ، صاحب ِ معطر پسینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ے تو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عزوجل کو کوئی حاجت نہیں۔"( صحیح البخاری، ج 2، ص279)

2۔ ایک اور مقام پر میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صرف کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اور بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔" (مستدرک للحاکم، ج 1 ، ص595)

ان احادیث میں روزے کی قبولیت کے اسباب بیان کیے گئے ہیں، روزہ دار کو چاہئے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، وہاں جھوٹ، فریب، لڑائی جھگڑا اور بدزبانی وغیرہ گناہ بھی چھوڑ دے۔

روزہ در اصل نام ہی تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہے اور روزے کا مقصد بھی تقویٰ کا حصول بتایا گیا ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیز وں سے بھی روک دیا جاتا ہے، تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے کی قوت حاصل ہوتی ہے، جس کے ذریعے گناہوں سے بچنا ممکن ہوتا ہے، اگر روزے میں بھی گناہوں سے اپنے آپ کو نہ بچایا جائے، روزے کی روحانیت، کیف وسر ور اور تقوی حاصل نہ ہوسکے گا اور روزہ شرفِ قبولیت تک نہیں پہنچ پائے گا۔

الغرض یہی روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع ہیں کہ ان کو اللہ کے احکام کے مطابق کرے ، ان اعضاء سے اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالی ہمیں روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع سیکھنے، انہیں اپنانے اور اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق روزہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

عبادت کی نیت سے صبحِ صادق سے  غروبِ آفتاب تک کھانے پینے وغیرہ سے باز رہنا، روزہ کہلاتا ہے، روزہ رکھنا فرض ہے اور بعض صورتوں میں واجب اور نفل بھی ہے، ماہِ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہے، اگر کسی نے نذرمانی ہو تو نذر پوری ہونے کے بعد روزہ رکھنا واجب ہے، فرض اور واجب روزوں کے علاوہ باقی ہر طرح کا روزہ نفلی ہوتا ہے، اگرچہ ان میں سے بعض روزے سنت اور مستحب بھی ہیں، جیسے عاشورا( یعنی دسویں محرم الحرام کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی)، 01شوال المکرم اور 10،11،12،13ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہیں۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"ہر شے کا ایک د روازہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔"( الجامع الصغیر، ص126، الحدیث 2415)

حقیقی روزہ دار کون؟

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔( کشف المحجوب، 353، 354ملتقظاً)

قرآن مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم سورۃ بقرہ کی آیت نمبر183 میں ہے ، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے، کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔"

روزہ داروں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف بھوکے پیاسے رہنے پر اکتفا کریں، بلکہ اعمال کا جائزہ لیتے ہوئے حقیقی روزہ دار بنیں، افسوس صد کڑوڑ افسوس! ہمارے اکثر روزہ دار روزہ کے آداب کا بالکل ہی لحاظ نہیں کرتے، اسی طرح فقہی اعتبار سے روزہ ہو تو جائے گا، لیکن ایسا روزہ رکھنے سے روحانی کیف وسُرور حاصل نہ ہو سکے گا۔

امیرالمؤمنین، حضرت مولائے کائنات، علی المرتضی، شیر ِخدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں:""اگر اللہ عزوجل کو اُمّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر عذاب کرنا مقصود ہوتا تو ان کو رمضان اور سورہ قل ھو اللہ شریف ہر گز عنایت نہ فرماتا۔"(نزهۃ المجالس، ج 1، ص216)

ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا

دی اُن کی رَحمت نے صَدا یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں

روزہ ایک ایسی اِنتہائی عُمدہ عبادت ہے کہ اسے "عبادت کا دروازہ" بھی کہا گیا ہے اور یہ ایسی خالص عبادت ہے، جو دوسروں کو بتائے بغیر کسی پر ظاہر بھی نہیں ہوتی، روزہ دار کو اس کی جزا بے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:" ہر نیکی کا ثواب 10سے 700 گُنا تک ہے سوائے روزے کے، بے شک یہ میرے لے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔" (احیاء العلوم، جلد1، ص700)

پیارے اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً(یعنی ارادۃً) کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، لیکن روزے کے کُچھ باطنی آداب بھی ہیں، جن کا پایا جانا روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے تا کہ ہم صحیح معنوں میں روزے کی قبولیت کا درجہ حاصل کر سکیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے وغیرہ سے روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے اور یہ روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور روزے کا مقصد تب ہی حاصل ہو گا، جب تقوٰی اور پرہیزگاری حاصل ہو گی۔

داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضانِ رمضان، ص91)

بقیہ اعضاء کا روزہ یعنی ہاتھ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کو گناہوں اورناپسندیدہ اُمور سے بچانا، مثلاً ہاتھ کو ظلم اور قتلِ ناحق سے بچانا، سود، چوری، رشوت وغیرہ گناہ سے بچانا، پاؤں کو ناجائز راستوں کی طرف چلنے سے بچانا، شراب خانے جانا، فلمیں ڈرامے دیکھنے جانے سے بچانا ہے۔

حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:

پیٹ کا روزہ اِفطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا، کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال کھانے سے رُکا جائے، پھر حرام پر اِفطار کر لیا جائے، ایسے روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے "جو محل بناتا ہے اور شہر کو گِرا دیتا ہے" کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے، نیز روزے کا مقصد کھانے میں کمی کرنا ہے، زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے، "حرام" دین کو ہلاک کرنے والا زہر جبکہ"حلال" دوا ہے، جس کا قلیل نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے کے، سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"

شرح حدیث:اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں:

1۔ اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر اِفطار کرتا ہے۔

2۔ اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تو رُکتا ہے، لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے اِفطار کر لیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے۔

3۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 715)

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ کتنے ہی روزہ دار بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے، جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو (گناہوں کی) کُھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 718)

گناہوں میں ملوث رہنے والے روزے دار کی مثال:جو شخص کھانے پینے اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں سے ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی۔

جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں، لیکن ا عضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجلقبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس طرح ہے جوہر عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے۔(احیاء العلوم، جلد 1، جلد719)

اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کے ظاہری و باطنی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم روزے میں کھانے پینے کے رُکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء کو بھی گناہوں سے بچا کر روزے رکھیں، تاکہ روزے کا جو مقصد ہے اُسے صحیح طور پر ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت اپنے آپ  کو قصداً کھا نے پینے اور عمل ِزوجیت سے روکے رکھے۔

اِسلامی روزے کی غرض و غایت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ روزے "خدا ترسی" کی طاقت انسان کے اندر مستحکم کر دیتے ہیں، تقوی، پر ہیز گاری، نفس پر قابو اور خوفِ خدا جیسی خاصیتیں اُجاگر ہوتی ہیں اور یہی وہ صفات ہیں جو روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں، یہی روزے کی اصل روح ہے، غور کریں کہ یہ گرمی کا موسم ہے، روزہ دار کو سخت پیاس لگی ہے، اِنسان تنہا ہے، کوئی ٹوکنے والا اور ہاتھ روکنے والا نہیں، کوری صراحی میں صاف ستھرا نکھرا ہوا ٹھنڈا پانی اس کے سامنے موجود ہے مگر پانی نہیں پیتا۔

روزے دار کو سخت بھوک لگی ہوئی ہے، بھوک کی وجہ سے جسم میں ضعف بھی محسوس کرتا ہے،

نفیس خوش ذائقہ مرغن غذا میسر ہے، کوئی شخص اسے دیکھ بھی نہیں سکتا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی، مگر وہ کھانا نہیں کھاتا۔

پیاری دل پسند بیوی گھر میں موجود ہے جہاں نہ خویش ہے نہ بیگانہ، نہ اپنا ہے نہ پرایا، محبت کے جذبات اسے اُبھارتے ہیں، اُلفت نے دونوں کو ایک دوسرے کاشیدا بنا رکھا ہے، لیکن روزہ دار اس سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے، وجہ یہ ہے کہ خدا کے حکم کی عزت و عظمت اس کے دل میں اس قدر جاگزیں ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آسکتا اور روزہ ہی اس عظمت و جلال الہی کے دل میں قائم ہونے کے باعث ہوا ہے، یہ ظاہر ہے کہ جب ایک ایمان دار آدمی خدا کے حکم کی وجہ سے جائز، حلال و پاکیزہ خواہشوں کو چھوڑ دینے کی عادت کر لیتا ہے تو وہ بالضرور خدا کے حکم کی وجہ سےحرام، ناجائز اور گندی عادتوں اور خواہشوں کو چھوڑ دے گا، یہی وہ صفات و اخلاقی برتری ہے ، جس کا روزے دار کے اندر پیدا کرنا مقصود ہے اور یہی روزے کی قبولیت کا ضامن ہے۔

اس لئے غیبت، فحش زبانی، بد نگاہی، بری باتوں اور تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تا کیدیں احادیث میں آئی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے :"کہ جو روزہ دار جھوٹ کہنا، لغو بکنا اور فضول کاموں کو کرنا نہیں چھوڑتا تو خدا کو کچھ پرواہ نہیں، اگر وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ۔"

مندرجہ بالا اِرشاد میں بھی روزے کی قبولیت کا ذریعہ بتایا گیا ہے ، روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، بلکہ ہر طرح کے گناہوں سے بچنے اور جسمانی اورذہنی فضولیات سے بھی بچنے کا نام ہے۔

اللہ پاک عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کی اصل روح کے مطابق فرض و نفلی روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بطفیلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کو قبول فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

رمضان میں پانچ حروف ہیں،  ر، م، ض ، ا ، ن:

ر سے مراد رحمت الٰہی، م سے مراد محبتِ الہی، ض سے مراد ضمان الٰہی، الف سے مراد اَمانِ الہی، ن سے مراد نورِ الہی اور رمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتی ہیں، روزہ، تراویح، تلاوتِ قرآن، اعتکاف، شب قدر میں عبادات، تو جو کوئی صدقِ دل سے یہ پانچ عبادات کرے، وہ اُن 5انعاموں کا مستحق ہے۔( تفسیرِ نعیمی، ج 2، ص 208)

روزہ کی تعریف:

اسلام کا تیسرا رکن "روزہ" ہے، تمام عبادات کی طرح روزہ بھی فرض کا بہترین اظہار ہے، روزہ تمام مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، روزہ ہمیں برائیوں سے بچاتا ہے اور گناہوں سے بچاتا ہے ۔

وقت سحری کا ہوگیا جاگو:

وقت سحری کا ہوگیا جاگو نور ہر سمت چھا گیا جاگو

اٹھو سحری کی کر لو تیاری روزہ رکھنا ہے آج کا جاگو

ماہِ رمضان کے فرض ہیں روزے ایک بھی تم نہ چھوڑنا جاگو

اٹھو اٹھو وضو بھی کرلو اور تم تہجد کرو ادا جاگو

چسکیاں گرم چائے کی بھر لو کھا لو ہلکی سی کچھ غذا جاگو

ہو گی مقبول فضلِ مولی سے کھا کے سحری کرو دُعا جاگو

ماہِ رمضان کی برکتیں لوٹو لوٹ لو رحمتِ خدا جاگو

کھا کے سحری اُٹھو ادا کرلو سنتِ شاہ انبیاءجاگو

تم کو مولا مدینہ دکھلائے اور حج بھی کرو ادا جاگو

تم کو رمضان کے صدقے مولا دے اُلفت و عشقِ مصطفی جاگو

تم کو رمضان کا مدینے میں دے شرف ربِّ مصطفی جاگو

کیسی پیاری فضا ہے رمضان کی دیکھ لو کر کے آنکھ وا جاگو

رحمتوں کی جھڑی برستی ہے جلد اُٹھ کر کے لونہا جاگو

تم کو دیدارِ مصطفی ہو جائے ہے یہ عطار کی دعا جاگو

فضائلِ رمضان شریف:

شیطان لاکھ سُستی دلائے مگر آپ ہمت کرکے فیضانِ رمضان کی برکتیں خود ہی دیکھ لیں، اسلامی بہنو!خدائے رحمان عزوجل کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیمُ الشان نعمت سے سرفراز فرمایا، ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے، رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب 70 گُنا یا اس سے بھی زیادہ ہے، فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق:"رمضان کے روزہ دار کے لئے مچھلیاں اِفطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔"

عبادت کا دروازہ :

اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:"روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔" اِس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل فرمایا۔

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مکی مدنی سلطان کا فرمانِ رحمتِ نشان ہے:" جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، آخری رات تک بند نہیں ہوتے، ہر سجدے کے عوض اس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے، اس کے لئے جنت میں سُرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے ، اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، اُس کے ہر سجدے کے بدلے اسے جنت میں ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔"

پانچ خصوصی کرم:

حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ ذیشان ہے:"میری اُمت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں، جو مجھ سے پہلے کبھی نبی کو نہ ملیں۔

(1) جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ عزوجل ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے، جس کی طرف اللہ عزوجل رحمت فرمائے ، اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔

(2) شام کے وقت ان کی منہ کی بو( جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ عزوجل کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔

(3) فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

(4) اللہ تعالی جنت کو حکم فرماتا ہے میرے نیک بندوں کے لیے مزین ہو جا، عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم راحت پائیں گے ۔

(5) جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے، تو اللہ عزوجل سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، قوم میں ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا وو لیلۃ القدر ہے ؟ارشاد فرمایا: نہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اُنہیں اُجرت دی جاتی ہے ۔

اس مہینے میں چار باتوں کی کثرت کرو:

ان میں دو ایسی ہیں جن کے ذریعے تم اپنے ربّ عزوجل کو راضی کرو گے، وہ یہ ہیں:

(1) لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا۔

(2) اِستغفار کرنا۔

جبکہ وہ دو باتیں جن سے تمہیں غنا( یعنی بے نیازی) نہیں، وہ یہ ہیں:

اللہ تعالی سے جنت طلب کرنا۔جہنم سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگنا۔

پیاری اسلامی بہنو!

اِس ماہ رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کا خو ب خو ب لُطف لوٹو، اِس ماہ مبارک میں کلمہ شریف زیادہ تعداد میں پڑھ کر اور بار بار استغفار یعنی خوب توبہ کے ذریعے اللہ تعالی کو راضی کرنے کی سعی( کوشش) کریں او اللہ تعالی سے جنت میں داخلے اور جہنم سے پناہ کی بہت زیادہ التجائیں کرنی ہیں۔

رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گناہ ملتا ہے ۔

سوالاتِ قبر:

بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو رمضان میں مر جائے اس سے سوالاتِ قبر بھی نہیں ہوتے، قیامت میں رمضان اور قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رمضان تو کہے گا: مولی عزوجل میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا اور قرآن عرض کرے گا :کہ یا ربّ عزوجل میں نے اسے رات میں تلاوت و ترا ویح کے ذریعے سونے سے روکا۔

لاکھ رمضان کا ثواب:

حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ خوشگوار ہے:"جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور روزہ رکھا اور رات میں جتنا میسر آیا قیام کیا، تو اللہ عزوجل اس کے لئے اور جگہ کے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا اور ہر دن ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر رات ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر روز جہاد میں گھوڑے پر سوار کر دینے کا ثواب اور ہر دن میں نیکی اور ہر رات میں نیکی لکھے گا۔

( ابن ِماجہ، ج 3، ص523 ، حدیث3117)


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ بہت ہی پیاری عبادت ہے،  اللہ عزوجل نے فرمایا:" روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔"اللہ عزوجل کا مزید ارشاد ہے:" بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وجہ سے ترک کرتا ہے۔" روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے ربّ عزوجلسے ملاقات کے وقت، روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کے نزدیک مُشک سے زیادہ پاکیزہ ہے، کتنی پیاری بشارت ہے اُس روزہ دار کے لئے جس نے اس طرح روزہ رکھا، جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے، یعنی اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچا کر رکھا، جُھو ٹ، غیبت، چغلی وغیرہ گناہوں سے روزے کی نو رانیت چلی جاتی ہے، اس لئے ہمیں ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں جس سے ہمارے روزے قبول ہوں، بھوک کا روزہ رکھنے کے ساتھ اعضاء کا روزہ بھی رکھئے اور اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچائیے، اگر ہم اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچائیں گے تو شاید ہم ان پیاری پیاری روایات جس میں روزہ داروں کے لئے بشارت ہے ہم اس کے مصداق نہ بن پائیں، اعضاء میں آنکھ کاروزہ ، کان کا روزہ، زبان کا روزہ، ہاتھوں کا روزہ، پاؤں کا روزہ وغیرہ ان کی کچھ تفصیل عرض کی جارہی ہے :

آنکھ کا روزہ:

آنکھ کا روزہ اس طرح رکھنا چاہیئے کہ آنکھ جب بھی اٹھے تو صرف اور صرف جائز اُمور (کاموں) کی طرف اُٹھے، ہماری آنکھ حرام نہ دیکھے، ہماری آنکھ اُس طرف اُٹھے، جس کے دیکھنے سے ہمیں ثواب ملے نہ کہ گناہ، مثال کے طور پر علماء کرام کی زیارت کیجئے کہ علماء کی زیارت بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، قرآن مجید کی زیارت کیجئے کہ قرآن پاک کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اللہ عزوجل کی عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فلمیں، ڈرامے نہ دیکھئے۔

کان کا روزہ:

کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف جائز باتیں سنیں، مثلاً کانوں سے تلاوت سنیں، نعتیں، بیانات اور اچھی اچھی باتیں سنیں، کان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس سے ہرگز ہرگز کسی کی چغلی نہ سنیں، غیبت نہ سُنیں، گانے باجے نہ سنیں، اگر کوئی چُھپ کر بات کر رہا ہو تو کان لگا کر نہ سنیں کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:" کہ جو شخص کسی کی باتیں کان لگا کر سنے، جو وہ اس بات کو پسند نہ کرتے ہوں ، تو قیامت کے روز اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔"

زبان کا روزہ:

زبان کا روزہ یہ ہے کہ صرف اور صرف نیک باتوں کے لئے ہی زبان کو حرکت میں لائیں، تلاوت کریں، ذکر و دُرود کیجئے، نعت شریف پڑھئے اور اچھی اچھی باتیں کیجئے، جھوٹ غیبت، چغلی وغیرہ قبیح گناہوں سے زبان نا پاک نہ ہونے پائے۔

ہاتھوں کا روزہ:

ہاتھوں کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں تو وہ صرف اور صرف نیک کاموں کے لیے اٹھیں، مثلاً قرآن مجید کو ہاتھ لگائیے کہ قرآن پاک کو چھونا بھی عبادت ہے، نیک لوگوں سے مصافحہ کیجئے، ہو سکے تو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرئیے، ان ہاتھوں کی نعمت سے کسی پر ظلماً ہاتھ نہ اٹھائیں، نہ کسی کا مال چُرائیں۔

پاؤں کا روزہ:

پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تو صرف نیک کاموں کے لئے، مثلاً پاؤں چلیں تو سنتوں بھرے اجتماع کی طرف چلیں، کاش! مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرف چلیں ، ہرگز ہرگز سینما گھر کی طرف نہ چلیں، بُرے دوستوں کی مجلس کی طرف نہ چلیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور پیاری پیاری اسلامی بہنو!واقعی حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تو اُسی وقت نصیب ہوں گی، جب ہم تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے، ا عضاء کا روزہ رکھنا قبولیت کے سب سے بڑے ذرائع ہیں، ہمیں انہیں اختیار کرنا چاہئے تاکہ ہمیں قبولیت کی سند نصیب ہو ۔

اللہ پاک ہمیں احسن طریقے سے روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ ایک ایسی اِنتہائی عُمدہ عبادت ہے کہ اسے "عبادت کا دروازہ" بھی کہا گیا ہے اور یہ ایسی خالص عبادت ہے،  جو دوسروں کو بتائے بغیر کسی پر ظاہر بھی نہیں ہوتی، روزہ دار کو اس کی جزابے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:" ہر نیکی کا ثواب 10سے 700 گُنا تک ہے سوائے روزے کے، بے شک یہ میرے لے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔" (احیاء العلوم، جلد1، ص700)

پیارے اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً(یعنی ارادۃً) کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، لیکن روزے کے کُچھ باطنی آداب بھی ہیں، جن کا پایا جانا روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے تا کہ ہم صحیح معنوں میں روزے کی قبولیت کا درجہ حاصل کر سکیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے وغیرہ سے روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے اور یہ روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور روزے کا مقصد تب ہی حاصل ہو گا، جب تقوٰی اور پرہیزگاری حاصل ہو گی۔

داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضانِ رمضان، ص91)

بقیہ اعضاء کا روزہ یعنی ہاتھ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کو گناہوں اورناپسندیدہ اُمور سے بچانا، مثلاً ہاتھ کو ظلم اور قتلِ ناحق سے بچانا، سود، چوری، رشوت وغیرہ گناہ سے بچانا، پاؤں کو ناجائز راستوں کی طرف چلنے سے بچانا، شراب خانے جانا، فلمیں ڈرامے دیکھنے جانے سے بچانا ہے۔

حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:

پیٹ کا روزہ اِفطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا، کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال کھانے سے رُکا جائے، پھر حرام پر اِفطار کر لیا جائے، ایسے روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے "جو محل بناتا ہے اور شہر کو گِرا دیتا ہے" کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے، نیز روزے کا مقصد کھانے میں کمی کرنا ہے، زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے، "حرام" دین کو ہلاک کرنے والا زہر جبکہ"حلال" دوا ہے، جس کا قلیل نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے کے، سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"

شرح حدیث:اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں:

1۔ اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر اِفطار کرتا ہے۔

2۔ اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تو رُکتا ہے، لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے اِفطار کر لیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے۔

3۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔ (احیاء العلوم، جلد 1، ص 715)

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ کتنے ہی روزہ دار بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے، جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو (گناہوں کی) کُھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 718)

گناہوں میں ملوث رہنے والے روزے دار کی مثال:جو شخص کھانے پینے اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں سے ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی۔

جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں، لیکن ا عضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجلقبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس طرح ہے جوہر عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے۔(احیاء العلوم، جلد 1، جلد719)

اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کے ظاہری و باطنی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین

لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم روزے میں کھانے پینے کے رُکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء کو بھی گناہوں سے بچا کر روزے رکھیں، تاکہ روزے کا جو مقصد ہے اُسے صحیح طور پر ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔