اللہ تعالی فرماتا ہے! یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض
کئے گئے جیسے کہ ان پر فرض کئے گئے جو تم سے پہلے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" کہ جب
رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو تمام جنتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور سارا مہینہ ایک
دروازہ بھی بند نہیں ہوتا اور اللہ تعالی
ایک آواز دینے والے کو یہ حکم دیتا ہے کہ یہ
آواز دو،
اے
بھلائی کے طلبگارو! آگے بڑھو، اے برائی کے
طلبگارو! پیچھے ہٹو، پھر فرماتا ہے، ہے کوئی بخشش مانگنے والا تا کہ اسے بخش دیا جائے، کوئی مانگنے والا ہے؟ تاکہ جو مانگا جائے اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، صبح طلوع ہونے تک اسی طرح آوازیں دی جاتی ہیں، افطار کے وقت ہر شب اللہ تعالی دوزخ سے دس لاکھ گناہ گاروں کو
آزاد فرماتا ہے، جن پر عذاب لازم ہو چکا تھا ۔( مکاشفۃ القلوب، ص686)
روزے کی حقیقت:
روزے
کی حقیقت امساک ہے، یعنی اپنی خواہشاتِ
نفس کو روکنا اور قابو میں رکھنا، چنانچہ
حضرت علی بن عثمان جلابی نے ایک مرتبہ سیّدِ عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا،(یا رسول اللہ اَوْھِنِی) یعنی اے اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ! آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:(اِحْبَسْ حَوَاسَکَ)یعنی
اپنی خواسِ خمسہ کو قابو میں رکھ! کیونکہ
انسان سے تمام نیکیوں اور برائیوں کا ظہور انہی پانچ حواس کے ذریعے سے ہوتا ہے، آنکھ جو دیکھنے کا آلہ ہے، کان جو سننے کا آلہ ہے، نا ک جو سونگھنے کاآلہ ہے، منہ جو ذائقے کا آلہ ہے اور پورا جسم جو چھونے کا آلہ ہے، یہ پانچوں فرمانبرداری اور معصیت کے مشترک اور یکساں آلات
ہیں، آدمی کے نیک اور بد اور اللہ عزوجل کے فرمانبردار اور نافرمان ہونے کا سارا انحصار انہیں
پانچ آلات کے استعمال پر ہے، ایک طرف علم
اور عقل اور روح کو دوسری طرف نفس اور ہوا کو اور ان آلات پر یکساں تصرّف کا اختیار اور موقع حاصل
ہے۔
اب
یہ آدمی کے اپنے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان آلات کو اپنے قابو میں رکھنے اور علم وعقل
اور روح کے تصرف میں دینے کی کوشش کرتا ہے یا انہیں نفس اور ہوا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا ہے، ان کو قابو میں رکھنے
کے لئے روزہ سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ کوئی نہیں۔
جو
شخص ماہِ رمضان میں عبادت پر استقامت اختیار کرتا ہے، اللہ عزوجل
اسے ہررکعت پر نور کا ایک ایک شہر انعام دے گا، اس ماہ کا اوّل رحمت، ا وسط مغفرت اور آخری عشرہ
دوزخ سے آزادی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ماہِ
رمضان کی پہلی رات آسمان، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری شب تک کھلے رہتے ہیں، جو ایماندار اس کی کسی بھی شب میں عبادت کرتا ہے، اس کے ہر سجدہ کے عوض ایک ہزار سات سو نیکیاں
لکھی جاتی ہیں اور جنت میں سُرخ یاقوت سے محل تیار کیا جاتا ہے۔
حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں:" کہ اگر اللہ عزوجل نے اُمّتِ محمدیہ کو عذاب سے
دوچار کرنا ہوتا، تو اسے ماہِ رمضان اور
سورۃ اخلاص کبھی عطا نہ فرماتا۔"
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:" بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلّق رہتا ہے ،جب تک صدقہ
فطر ادا نہ کرے ۔ (تاریخ بغداد )