قرآن
کریم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو اچھے اعمال کرے گا، اُسے جنت ملے گی، اچھے اعمال میں ایک عمل روزہ بھی ہے، چنانچہ اللہ
تبارک و تعالیٰ پارہ 30، سورہ البیّنہ کی آیت نمبر 7اور8میں اِرشاد
فرماتاہے:
ترجمہ کنز الایمان:"بے شک جو ایمان
لائے اور اچھے کام کئے، وہی تمام مخلوق میں
بہتر ہیں، ان کا صلہ ان کے ربّ کے پاس، بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ
اس کے لئے ہے جو اپنے ربّ سے ڈرے ۔"
اِمام
اَجل حضرت سیّدنا شیخ ابو طالب مکّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب "قُوتُ القلوب" میں فرماتے ہیں:"روزہ
آگ سے ڈھال ہے اور نیک لوگوں کے دَرَجات
تک رسائی کا سبب ہے، جب روزہ دار روزے پر صبر
کرتا ہے تو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے، مگر
جب وہ اپنے اعضاء کو گناہوں میں خوب مگن کر دے تو اس کی مثال اس شخص جیسی ہےجوبار
بار توبہ کر کے توڑ دیتا ہے، پس اُس کی
توبہ توبہ نصوح نہیں ہےاور نہ ہی اس کا یہ روزہ صحیح ہے، کیا آپ کی نظروں سے رسولِ بے مثال صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ
فرمانِ عالیشان نہیں گُزرا کہ " روزہ آگ کے سامنے ایک ڈھال ہے، جب تک کہ اسے جھوٹ یا غیبت کے زریعے پھاڑا نہ جائے۔"
اِس
فرمانِ عالیشان کو پڑھ کر پتہ چلا کہ اگر
روزہ کو جھوٹ، غیبت اور اپنے اَعضاء کو
گناہوں سے بچا کر گزارا جائے تو وہ قبولیت کا زریعہ بن سکتے ہیں۔
واسِطہ رمضان کا یا ربّ ہمیں تو بخش دے
نیکیوں کا اپنے پلّے کچھ نہیں سامان ہے
(وسائلِ بخشش،
ص 704)