روزہ
یعنی صوم کسی چیز سے رُکنے اور چھوڑنے کو
کہتے ہیں اور روزہ دار کو صائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے اور ہمبستری سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے، روزے کے
ضمن میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے ، یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ! تم ہر روز
ے رکھنا فرض کیا گیا ہے کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔"(سورۃ بقرہ آیت
نمبر183)
روزہ
بڑی پرانی عبادت ہے، چنانچہ تفسیر خازن میں
ہے، حضرت آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ السلام سے لے
کر حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے
انبیاء کرام تشریف لائے اور ان کی امتیں
آئیں ہیں ان سب پر روزے فرض کئے گئے ہیں، کوئی ایسی نہ گزری جس پر روزے فرض نہ کیے گئے ہوں۔
روزہ
دراصل نام ہی اپنے آپ کو روکنے کا ہے اور وہ ہے گناہوں سے روکنا، وہ اس طرح روکے کہ اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچائے ۔
زبان
کو اس طرح روکے کہ زبان سے برا نہ بولے، نہ فحش گو ئی کرے نہ
کسی کی دل آزاری کرے اور آنکھوں کو اس طرح روکے کہ آنکھ کسی برائی کی طرف نظر نہ کرے، فلمیں ڈرامے نہ دیکھیں، کانوں کو اس طرح روکے کہ
برائی نہ سنے، فحش کلام، گانے باجے نہ سنے، کسی کی غیبت نہ سنے، ہاتھ کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، نہ کسی کی حق تلفی کرے، کسی پر ظلم نہ کرے، ہاتھ کو گناہوں والے کام میں استعمال نہ کرے، پاؤں کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ پاؤں سے برائیوں کی جگہ نہ جائے، پاؤں سے کسی کو تکلیف نہ دے، گناہوں کی طرف قدم نہ بڑھائے۔
اس
حوالے سے چند احادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:
1۔
سرکار ِمدینہ، راحتِ قلب وسینہ ، صاحب ِ معطر پسینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو بُری
بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ے تو
اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عزوجل
کو کوئی حاجت نہیں۔"( صحیح البخاری، ج 2، ص279)
2۔
ایک اور مقام پر میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صرف
کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اور بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔" (مستدرک للحاکم، ج 1 ، ص595)
ان
احادیث میں روزے کی قبولیت کے اسباب بیان کیے گئے ہیں، روزہ دار کو چاہئے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، وہاں جھوٹ، فریب، لڑائی جھگڑا اور بدزبانی وغیرہ
گناہ بھی چھوڑ دے۔
روزہ
در اصل نام ہی تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہے اور روزے کا مقصد بھی تقویٰ کا حصول بتایا
گیا ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی
جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیز وں سے بھی روک دیا جاتا ہے، تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے کی قوت حاصل ہوتی ہے، جس کے ذریعے گناہوں سے بچنا ممکن ہوتا ہے، اگر روزے میں بھی گناہوں
سے اپنے آپ کو نہ بچایا جائے، روزے کی روحانیت، کیف وسر
ور اور تقوی حاصل نہ ہوسکے گا اور روزہ شرفِ قبولیت تک نہیں پہنچ پائے گا۔
الغرض
یہی روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع
ہیں کہ ان کو اللہ کے احکام کے مطابق کرے ، ان اعضاء سے اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور
گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالی ہمیں روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع سیکھنے، انہیں اپنانے اور اللہ تبارک
و تعالی کے حکم کے مطابق روزہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم