روزے کی قبولیت کے ذرائع

Thu, 8 Apr , 2021
3 years ago

روزہ:

صوم کے معنی رُک جانے کے ہیں، خواہ کسی بھی چیز سے رک جانا" صوم" کہلاتا ہے اور شریعت کی اصطلاح میں صوم یعنی روزہ سے مراد صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت خالص اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر کھانے پینے، خواہشاتِ نفسانی اور دیگر ممنوع باتوں سے رک جانا ہے ۔

روزے کی اہمیت:

روزہ اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

ترجمہ:اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے اُمّتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے متعلق فرمایا:"روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے تو خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو جائے گا۔"( صحیح بخاری شریف)

رمضان کے روزے فرض ہیں، اِس کے علاوہ نفل روزے رکھنا اَجرِ عظیم ہے، یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ روزہ ایک اہم ترین عبادت ہے، پر یہ معلوم نہیں ہوا کہ روزہ قبول ہوا یا نہیں، اس کو جاننے کے لیے چند روزے کی قبولیت کے ذرائع ملاحظہ فرماتے ہیں:

نیت کرنا:

روزے میں نیت فرض عمل ہے، جس طرح اور عبادتوں میں بتایا گیا ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، اسی طرح یہاں روزے میں بھی وہی مراد ہے، البتہ زبان سے کہہ لینا اچھا ہے، رات کو نیت کرے کہ کل روزہ رکھوں گا یا دن میں نیت کی تو یہ کہنا ہوگا کہ "میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں"، ہر نیک کام میں نیت کرنا افضل ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:ترجمہ:" مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔"

اگر اچھی نیت اور خلوص کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو ثواب بھی اسی حساب سے ملے گا ۔

فرض کام انجام دیں:

کاموں میں فرض نماز اور زکوٰۃ ہے، نماز دین کا اہم رکن ہے، نماز کی پابندی اور ٹائم کا خاص خیال رکھا جائے، اگر روزہ رکھا اور نماز نہ پڑھی تو روزہ نہ قبول ہونے کا اندیشہ ہے اور گناہ گار ہوں گے۔

روزے کا تقاضہ:

روزے کا مقصد صرف بھوکے پیاسے رہ کر گزار لینا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد عظیم ہے اور اس کو پانے کے لئے کچھ تقاضے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ:جو انسان روزے کی حالت میں جھوٹی باتوں اور گناہ کے کاموں سے باز نہیں آتا، اللہ تعالی کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔

روزے کے دوران جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی دینا، بیہودہ بات کہنا، کسی کو تکلیف دینا، یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں، روزے میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ بھی مکروہ ہوتا ہے، لہذا ان باتوں سے اِجتناب کیا جائے، ان کا گناہ روزے میں مزید بڑھ جاتا ہے۔

روزہ توڑنے والی چیزوں سے احتیاط کریں:

کھانے یا پینے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو اور اگر روزہدار ہونایاد نہ رہا اور بھول کر کھا لیا، پانی پی لیا یا جماع کر لیا تو روزہ نہ گیا ۔

روزہ رکھ کر ہمیں ان تمام اقوال و افعال سے گریز کرنا چاہئے، جس کی ممانعت اسلام میں آئی ہے، اور ہر وہ کام جس کا حکم اسلام نے دیا ہے وہ بجا لانا چاہئے، ہمیں چاہئے ہم زبان سے جھوٹ نہ بولیں، آنکھوں سے بُرا نہ دیکھیں، ہاتھوں سے وہ کام نہ کریں جو گناہ کا سبب ہوں، کان سے حرام نہ سنیں اور دل میں کسی کے بارے میں برا خیال نہ کریں اور خدمتِ خلق کا جذبہ رکھیں اور اشرف المخلوقات ہونے کا درس دیں تو یقیناً اللہ تعالی ربِّ کریم، غفور الرحیم اپنی بارگاہِ عالیشان میں ہم گناہگاروں کا روزہ قبول فرمائے گا ۔ اٰمین

(قانون شریعت ، ص169/182)