روزہ ایسی اہم عبادت ہے، جسے اللہ عزوجل نے تقوٰی کے حصول کے لئے پچھلی اُمتوں پر فرض کیا تھا، سورہ بقرہ آیت 831، 184 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!تم پر
روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے، گنتی
کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر
میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک
مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور
روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔"
مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ تفسیر صراط الجنان جلد 1
صفحہ 290 پر ہے:آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ روزے کا
مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے، روزے
میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور
کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنے نفس پر قابو پانے کی مشق(Practice) ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس(نفس
پر قابو)اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر
قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(فیضان
رمضان مرمم، ص 73)
حدیث
پاک ہے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ، کہ جنت میں
آٹھ دروازے ہیں، جن میں سے ایک باب الرّیان ہے، جس میں صرف روزہ دار داخل ہوں
گے۔" (مراۃ المناجیح، ص 146، حدیث 1861)
حدیث
پاک ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ عزوجل
کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔"( بخاری شریف، ج1، ص268، حدیث1093)
حضرت
داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی
شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے
رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضان رمضان، ص91)
حدیث
پاک کا حصّہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :"جو ایمان اور اخلاص کے ساتھ رمضان کے
روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔"(مراۃ المناجیح، جلد 3، ص 146)
حاصلِ بحث:
آیتِ
مبارکہ، احادیثِ مبارکہ اور حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے قول
سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان ، اخلاص اور
تقوی اختیار کرنا روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں۔
مفتی
احمد یار خان فرماتے ہیں:"حدیث سے معلوم ہوا کہ ہندوؤں کے صرف (روزہ) اور کافروں کے وہی روزوں
کا ثواب نہیں کہ وہاں ایمان نہیں اور جو شخص بیماری سے علاج کے لئےروزہ رکھے نہ کہ
طلبِ ثواب کے لئے تو کوئی ثواب نہیں کہ وہاں احتساب نہیں۔" (مراۃ
المناجیح، جلد 3، ص 146)
آیت
مبارکہ میں روزے کا مقصد وہی تقوٰی بتایا گیا، اگرمقصد رکھ کر حاصل کرنے کی
سعی ( کوشش) کی جائے
تو قبولیت کی قوی امید ہے۔