عبادت
کی نیت سے صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک
کھانے پینے وغیرہ سے باز رہنا، روزہ
کہلاتا ہے، روزہ رکھنا فرض ہے اور بعض صورتوں میں واجب اور نفل بھی ہے، ماہِ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہے، اگر کسی نے نذرمانی ہو تو نذر پوری ہونے کے بعد روزہ رکھنا واجب ہے، فرض اور واجب روزوں کے علاوہ باقی ہر طرح کا روزہ نفلی ہوتا ہے، اگرچہ ان میں سے بعض روزے سنت اور مستحب بھی ہیں، جیسے عاشورا( یعنی دسویں محرم الحرام کا روزہ
اور اس کے ساتھ نویں کا بھی)، 01شوال المکرم اور
10،11،12،13ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہیں۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:"ہر شے کا ایک د روازہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔"(
الجامع الصغیر، ص126، الحدیث 2415)
حقیقی روزہ دار کون؟
حضرت
سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور
رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو
شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم
کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ"
ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے
گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔( کشف
المحجوب، 353، 354ملتقظاً)
قرآن
مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم سورۃ بقرہ کی آیت نمبر183 میں ہے ، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! تم
پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے، کہیں
تمہیں پرہیزگاری ملے ۔"
روزہ
داروں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف بھوکے پیاسے
رہنے پر اکتفا کریں، بلکہ اعمال کا جائزہ
لیتے ہوئے حقیقی روزہ دار بنیں، افسوس صد
کڑوڑ افسوس! ہمارے اکثر روزہ دار روزہ کے
آداب کا بالکل ہی لحاظ نہیں کرتے، اسی طرح
فقہی اعتبار سے روزہ ہو تو جائے گا، لیکن
ایسا روزہ رکھنے سے روحانی کیف وسُرور حاصل نہ ہو سکے گا۔
امیرالمؤمنین،
حضرت مولائے کائنات، علی المرتضی، شیر ِخدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے
ہیں:""اگر اللہ عزوجل
کو اُمّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
پر عذاب کرنا مقصود ہوتا تو ان کو رمضان
اور سورہ قل ھو اللہ شریف ہر
گز عنایت نہ فرماتا۔"(نزهۃ المجالس، ج 1، ص216)
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا
دی اُن کی رَحمت نے صَدا یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں
روزہ
ایک ایسی اِنتہائی عُمدہ عبادت ہے کہ اسے "عبادت کا دروازہ" بھی کہا گیا
ہے اور یہ ایسی خالص عبادت ہے، جو دوسروں
کو بتائے بغیر کسی پر ظاہر بھی نہیں ہوتی، روزہ دار کو اس کی جزا بے حساب دی جائے گی، جو کسی گمان اور پیمانے کے تحت نہیں ہوگی، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اِرشاد فرماتا ہے:" ہر نیکی
کا ثواب 10سے 700 گُنا تک ہے سوائے روزے
کے، بے شک یہ میرے لے ہے اور میں
ہی اس کی جزا دوں گا۔" (احیاء العلوم،
جلد1، ص700)
پیارے
اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً(یعنی ارادۃً) کھانے پینے اور جماع سے باز
رہے، لیکن روزے کے کُچھ باطنی آداب بھی ہیں، جن کا پایا جانا روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری
ہے تا کہ ہم صحیح معنوں میں روزے کی قبولیت کا درجہ حاصل کر سکیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے
وغیرہ سے روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جائے اور یہ روزے کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور روزے کا
مقصد تب ہی حاصل ہو گا، جب تقوٰی اور پرہیزگاری
حاصل ہو گی۔
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:
حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی
حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو
کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا
اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (فیضانِ رمضان، ص91)
بقیہ
اعضاء کا روزہ یعنی ہاتھ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھوں اور پاؤں کو گناہوں اورناپسندیدہ اُمور سے بچانا،
مثلاً ہاتھ کو ظلم اور قتلِ ناحق سے
بچانا، سود، چوری، رشوت وغیرہ گناہ سے
بچانا، پاؤں کو ناجائز راستوں کی طرف چلنے سے بچانا، شراب خانے جانا، فلمیں ڈرامے
دیکھنے جانے سے بچانا ہے۔
حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:
پیٹ کا روزہ اِفطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا، کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال
کھانے سے رُکا جائے، پھر حرام پر اِفطار
کر لیا جائے، ایسے روزہ دار کی مثال اُس شخص کی سی ہے "جو محل بناتا ہے اور شہر کو
گِرا دیتا ہے" کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی
اور وجہ سے، نیز روزے کا مقصد کھانے میں
کمی کرنا ہے، زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے، "حرام" دین کو ہلاک کرنے والا زہر
جبکہ"حلال" دوا ہے، جس کا قلیل
نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے چنانچہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا:"کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے کے، سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"
شرح حدیث:اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں:
1۔
اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر اِفطار کرتا ہے۔
2۔
اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تو رُکتا ہے، لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے اِفطار کر
لیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے۔
3۔
اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔(احیاء العلوم، جلد
1، ص 715)
بعض
علماء نے فرمایا ہے کہ کتنے ہی روزہ دار بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے، جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے
باوجود بے روزہ وہ شخص ہے، جو بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنے اعضاء کو (گناہوں
کی) کُھلی چھوٹ دے دیتا ہے ۔(احیاء العلوم، جلد 1، ص 718)
گناہوں میں ملوث رہنے والے روزے دار کی مثال:جو
شخص کھانے پینے اور جماع سے تو رُکا رہے، لیکن گناہوں سے ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے
تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وُضو میں اپنے کسی عُضو پر تین بار مسح کرے، اِس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی
اعضاء کو دھونا ترک کر دیا تو جہالت کے سبب اس کی نماز اِس پرلوٹا دی جائے گی۔
جو
کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں، لیکن ا عضاء
کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے ، اُس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک
ایک بار دھوتا ہے، اس کی نماز ان شاء اللہ عزوجلقبول ہو گی کیونکہ اِس نے اصل
کو پُختہ کیا، اگرچہ زائد چھوڑ دیا اور جس
نے دونوں کو جمع کیا وہ اس طرح ہے جوہر
عُضو کو تین تین بار دھوتا ہے، اِس نے
اَصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی
کمال ہے۔(احیاء العلوم، جلد 1، جلد719)
اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ ہمیں روزے کے ظاہری
و باطنی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
لہذا
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم روزے میں کھانے پینے کے رُکنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء کو بھی
گناہوں سے بچا کر روزے رکھیں، تاکہ روزے کا جو مقصد ہے اُسے صحیح طور پر ہم
حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔