روزے کی قبولیت کے ذرائع

Wed, 7 Apr , 2021
3 years ago

روزہ بہت قدیم عبادت ہے،  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں، اگرچہ گزشتہ اُمتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے، رمضان کے روزے 10شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے۔ (در مختار، کتاب الصوم، 3/383)

شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری (جماع) سے بچا جائے۔(خازن، البقرہ، تحت الآیۃ، 183، 1/119)

روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور جماع سے باز رہے، تاہم روزے کے کچھ باطنی آدب بھی ہیں، جن کا جاننا ضروری ہے تا کہ ہم روزے کی برکتیں حاصل کر سکیں اور یہ مقبول بھی ہوں، چنانچہ روزے کے تین درجےہیں:

(1)عوام کا روزہ (2)خواس کا روزہ (3) اخص الخواص کا روزہ

عوام کا روزہ :

روزہ کے لغوی معنی "رکنا"لہذا شریعت کی اصطلاح میں صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہ عام لوگوں کا روزہ ہے۔

خواص کا روزہ:

کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکنا، خو اص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔

اخص الخواص کا روزہ:

اپنے آپ کو تمام ا مور سے روک کر صرف اور صرف اللہ عزوجل کی طرف متوجّہ ہونا یہ اخص الخواص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے ۔(بہار شریعت، ج 1، ص966، ملخصاً)

تفسیر صراط اجنان میں ہے کہ روزے کامقصد تقوی و پرہیز گاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو پانا وہ بنیادی چیز ہے ، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، ج 1، ص290)

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتوں سے روکے رکھنا اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت بننے سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ (کشف المحجوب، ص353,354)

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:" روزہ ایک امانت ہے اور ہر ایک کو اپنی امانت کی حفاظت کرنی چاہئے۔" امانت کی حفاظت اعضاء کو گناہوں سے بچانے سے ہوتی ہے۔ (قوت القلوب، ج1، ص369)

حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تو اسی وقت نصیب ہوں گی، جب ہم تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے، ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، جیسا کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:"بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(ابن ماجہ، ج2، ص320، حدیث 1690)

اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عزوجل فیضان رمضان سے ہر مسلمان کو مالا مال فرما، ہمیں ماہِ رمضان کی قدر و منزلت نصیب کر اور اسکی بے ادبی سے بچا، یا اللہ پاک ہمیں کھانے پینے وغیرہ سے رُکے رہنےکے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر اعضائے بدن کو بھی گناہوں سے بچا کر حقیقی معنوں میں روزے کا پا بند بنا۔(اٰمین